تحریر: نرجس ملک
عکاسی: خرّم خان لے آؤٹ: نویدرشید
سلمیٰ خان ایک خوش گُلو، خوش الحان، نعت خواں، ثناء خواں کی حیثیت سے تو اپنی ایک معتبر و مستند شناخت رکھتی ہی ہیں، اُنہیں متعدّد دینی و مذہبی پروگرامز، محافل کی میزبانی کا شرف بھی حاصل ہے۔ نیز، نعت گو، نعت خواں خواتین کے لیے ایک شان دار پلیٹ فارم ’’صراطِ نعت ایسوسی ایشن‘‘ کی بھی روحِ رواں ہیں۔ اس ایسوسی ایشن کا بنیادی مقصد مُلک بھر کی نعت خواں خواتین کو ایک مرکز پر جمع کرنے کے ساتھ مدحِ رسولﷺ کے جذبے سے سرشار خواتیں کو شاہِ خیرالانام، خیرالبشر سے اظہارِ محبّت و عقیدت کے لیے وسائل و مواقع فراہم کرنا اور اُن کی خداداد صلاحیتوں کو پروان چڑھاناہے۔ سلمیٰ خان کا تعلق ایک پشتون مذہبی گھرانے سے ہے۔ خُوب صُورت علمی و دینی اقدار کے ساتھ پروان چڑھیں۔
لحنِ داؤدی تو نعمتِ خداوندی ہے، لیکن سیرتِ نبویؐ کا گہرائی سے مطالعہ خالصتاً قلبی رجحان کا معاملہ تھا۔ اور پھر اسکول، کالج کی سطح سے مدح و تعریفِ رسولؐ کو ذریعۂ اظہار بنایا تو اسلامیات اور ماس کمیونی کیشن میں ماسٹرز، بعد ازاں شادی، شعبۂ تدریس سے وابستگی، بچّی کی پیدایش سے تاحال نعت خوانی ہی شہادتِ عشقِ رسولؐ ہے۔ لگ بھگ دس سال سے ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن سے بطور ثناء خواں منسلک ہیں۔
پھر خوشبوئے حسان کے فروغ اور دخترانِ اسلام کو زیورِ نعت سے آراستہ و پیراستہ کرنے والی منفرد و مؤثر، فکری و تربیتی تنظیم کی بانی و سرپرست کی حیثیت سے بھی مسلسل سرگرمِ عمل ہیں۔ وقتاً فوقتاً میزبانی کا شوق بھی پورا کرتی رہتی ہیں، مگر ان تمام حوالوں کے ساتھ اُن کا جو سب سے پیارا، بہت پیار بَھرا حوالہ ہے، وہ ایک ننّھی پَری، 9 سالہ پلوشتہ الزہرہ کی ماں ہونے کا ہے۔ جو حقیقتاً سلمیٰ خان کے آنگن میں اُتری ایک پَری ہے کہ پلوشہ کا نِک نیم بھی ’’پَری‘‘ ہی ہے۔
ماں تو ماں ہی ہوتی ہے، بقول منوّر رانا ؎ چلتی پھرتی ہوئی آنکھوں سے اذاں دیکھی ہے…مَیں نے جنّت تو نہیں دیکھی ہے، ماں دیکھی ہے‘‘ مگر پلوشتہ الزہرہ کی ماں، سلمیٰ خان باقی ماؤں سے کچھ جدا یوں ہیں کہ انہوں نے اپنی دودھ پیتی بچّی کی جدائی کا جانکاہ عذاب بھی جھیلا ہے۔ قسمت کا پھیر، نصیبے کا امتحان کہ اُن کی پہلی شادی کام یابی سے ہم کنار نہ ہو سکی، بچّی کی پیدایش کے بعد علیحدگی پر منتج ہوگئی۔ پھر بچّی شوہر، سُسرال والوں نےچھین لی تو اس کی حوالگی، تحویل کے لیے بات کورٹ کچہری تک بھی گئی اور بقول سلمیٰ ’’آج ایک بہت پُرسکون، خوش گوار، خوش حال زندگی گزارنے کے باوجود مَیں اُس وقت کی اذّیت ایک لمحےکوبھی فراموش نہیں کر سکتی کہ جب میری دودھ پیتی بچّی مجھ سے زبردستی الگ کردی گئی۔
مَیں اُن لمحات کی تڑپ، بےقراری و بےچینی کبھی بھول ہی نہیں سکتی۔ کسی کل چین نہیں پڑتا تھا۔ پَل پَل جیتی مرتی تھی۔ کبھی لگتا تھا دل غم سے پھٹ جائے گا۔ مَیں اپنی معصوم گل گوتھنی سی بچّی کو اپنی گود میں بھرنے کےلیے مچلی جاتی تھی۔ لگتا تھا، جیسےکسی نےجسم سے جان نکال لی ہے، بس ایک زندہ لاش کی سی حالت تھی۔ میرا رُواں رُواں بیٹی سےملاقات کے لیے دُعاگو ہوتا۔ اور الحمدُللہ، ثم الحمدُللہ بالآخرعدالت کےذریعےمجھےمیری پَری، میری پلوشہ واپس مل گئی۔ توآپ اندازہ لگا سکتی ہیں کہ میرا اور پلوشہ کا تعلق ایک عام ماں، بیٹی کے رشتے سے کس قدر سِوا، عمیق اور اٹوٹ ہے۔‘‘ سلمیٰ خان ماضی کی تلخ یادوں کے زیرِاثر احساسات و جذبات کی رَو میں بہنے سی لگی تھیں۔
نم ناک لہجے میں دوبارہ گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے بولیں، ’’مَیں دوسری ماؤں کے مقابلے میں اپنی بیٹی کےلیےضرورت سےزیادہ بلکہ حددرجہ حسّاس ہوں۔ مَیں اُس سے دیوانہ وار پیار کرتی ہوں، تو اُس کی تعلیم و تربیت کےمعاملےمیں بھی خاصی ذکی الحِس ہوں۔ مَیں کسی بات پر بھی سمجھوتا کر سکتی ہوں، مگر اپنی بیٹی کی پرداخت، تعلیمِ اخلاق پر نہیں۔ اور یہ میری دن رات کی محنت ہی کا ثمر ہے کہ میری پَری اپنے ہم عُمر دیگر بچّوں کی نسبت کہیں زیادہ سوجھ بوجھ رکھتی ہے۔ اپنی ماں کی سچّی ہم دردو خیرخواہ ہے۔ میری ذرا سی تکلیف پرتڑپ اُٹھتی ہے اور اُن تمام تر محاسن سے مرصّع ہے، جو کسی بھی آئیڈیل بچّے میں ممکن ہیں یا والدین اپنی اولاد میں دیکھنے کے آرزومند ہوتے ہیں۔‘‘ ماں، بیٹی کے دن بھر کے معمولات سے متعلق کیے گئے سوال کے جواب میں سلمیٰ نے بتایا ’’میری بٹیا میرے ساتھ نمازِ فجر ہی کےلیے اُٹھ جاتی ہے۔
مَیں اس کی پسند کا ناشتا اپنے ہاتھوں سے تیار کرتی ہوں، لیکن آج کل کے بچّوں کی طرح پَری بھی کھانے پینے کی چور ہے۔ مَیں اُس کی صحت کی طرف سےفکرمند ہی رہتی ہوں۔ اسکول ہمیشہ بہت شوق سے اور ہنسی خوشی جاتی ہے۔ اسکول سے واپس آتے ہی نان اسٹاپ وہاں کی رُوداد شروع ہوجاتی ہے۔ جزئیات سے تمام تر تفصیلات ماں کے گوش گزار کرکے کھانا کھایا، ظہر کی نماز پڑھی جاتی ہے۔ نمازِ ظہر کے بعد پلوشہ کی میرے ساتھ قرآن کلاس ہوتی ہےکہ مَیں اپنی بچّی کو خود ہی قرآن پڑھاتی ہوں۔ کچھ آرام کے بعد ہم شام میں کافی وقت اپنے لان میں گزارتے ہیں۔ مَیں پودوں کو پانی وغیرہ دیتی ہوں اور پَری بی بی اپنا جھولا جھولتی ہیں کہ یہ اُن کی مَن پسند ایکٹیویٹی ہے۔ اُس کے بعد ہوم ورک کا ٹائم ہوجاتا ہے، اور وہ زیادہ تر پَری کے ڈیڈی کرواتے ہیں کہ ہم دونوں ماں، بیٹی ریاضی میں تھوڑے کمزور ہیں۔
پلوشہ کو گھر داری، خصوصاً کچن کے کام کرنا بھی بہت پسند ہے، تو رات کے کھانے کی تیاری میں بڑے ذوق و شوق سے میرا ہاتھ بٹاتی ہے۔ رات سونے سے پہلے مَیں اپنی لاڈلی کو کوئی نہ کوئی تاریخی، مذہبی کہانی، واقعہ ضرور سُناتی ہوں اور پھرسوتے وقت کی دُعائیں، اذکار کرتے کرتے میری بچّی نیند کی آغوش میں چلی جاتی ہے۔ تو یہ ہے، ہم ماں، بیٹی کےبہت خُوب صُورت تعلق اورایک دوسرے کو دیکھ دیکھ جیتے لمحات کی ایک جھلک۔‘‘ سلمیٰ خان کا لہجہ سُکھ شانتی،سکون و اطمینان سے لبریز تھا۔
سلمیٰ کی اپنی تربیت اور اب پلوشہ کی تربیت میں ایک جنریشن کا فاصلہ ہے۔ ہم نے اُن سے، اُن کی والدہ اور آج کی ماؤں کے اندازِتعلیم و تربیت کے فرق کے حوالے سے سوال کیا تو سلمیٰ کا کہنا تھا کہ ’’بھئی ہمارا دَور تو بہت ہی سادہ تھا۔ ہم جوائنٹ فیملی سِسٹم میں رہتےتھے، جس میں ’’پرائیویسی‘‘ جیسے لفظ کا کوئی تصوّر ہی نہ تھا۔ سب مِل جُل کر رہتے۔ لڑتے جھگڑتے تھے، تو خُوب ہنستے بولتے بھی۔ میری والدہ تو بڑی اللہ لوک ہیں، انتہائی صابر و شاکر اور ہم چار بہنوں، دو بھائیوں کو بھی ہمیشہ یہی مَت دی کہ ’’صبر شُکر کرنا سیکھو‘‘ اور سچ تو یہ ہے کہ ہمارے دَور کے بچّے بھی، آج کے دَور کے بچّوں سے یک سر مختلف تھے۔
ہمیں تو ’’ہاں‘‘ سے زیادہ ’’نہ‘‘ سُننے کی عادت تھی، پھر والدین کی محنت و ریاضت کی بہت قدر بھی کی جاتی۔ مَیں نے اپنی زندگی میں اپنی ماں کو کبھی فارغ بیٹھے نہیں دیکھا۔ بس، وہ جُٹی رہتی تھیں۔ اُن کی زندگی کا مقصد ہی ہر ایک کو راضی رکھنا تھا اور اس مقصد کی تکمیل ہی میں اپنی ہستی فنا کر ڈالی۔ امّی کو جنون تھا کہ ہم سب بہن بھائی کسی طرح اعلیٰ تعلیم حاصل کرلیں۔ وسائل محدود تھے، تو سلائی کڑھائی تک کی۔ مَیں بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہوں، تو امّی کی زیادہ ہم درد بھی تھی اور زیادہ قریب بھی۔ یوں بھی پہلوٹی کی اولاد سے والدین کی محبّت و انسیت ہی الگ ہوتی ہے۔ امّی مجھے بے انتہا چاہتی تھیں، مگر مائیں سب کچھ کرکے بھی اپنی اولاد کی قسمت نہیں لکھ سکتیں۔
وہ کہتے ہیں ناں کہ اگر ماؤں سے اُن کی زندگی لے کر صرف ایک فیصلے کا اختیار دے دیا جائے، تو وہ اپنی اولاد، خصوصاً بیٹیوں کی تقدیر لکھنے کا فیصلہ کریں، تو میری ماں بھی ایسی ہی ہے، مگر قسمت کا لکھا دیکھیں، میری ماں کو زندگی کا سب سے بڑا دُکھ میری ہی وجہ سے اُٹھانا پڑا کہ جب مَیں ایک ہول ناک خواب، کڑی آزمایش جیسی شادی شدہ زندگی کے بعد طلاق کا لیبل لگائے دوبارہ اُن کی دہلیز پر آگئی اور پھر چند ماہ کی دودھ پیتی بچّی کےحصول کی جنگ، بخدا اگر میری ماں کا شیرنی جیسا وجود، چھتنار، گھنیرا سایا ساتھ نہ ہوتا، تو مَیں تو مَر ہی جاتی۔ انہوں نے مجھے ہی نہیں، پلوشہ کو بھی سنبھالا۔
ہم دونوں کو اپنی نرم و گرم آغوش میں چُھپا کر، زمانے کی ساری کڑی دھوپ، تھپیڑے خود سہے۔ وہ ہےناں ؎ ’’اِس ظلم کی دنیا میں فقط پیار مِری ماں… ہے میرے لیے سایۂ دیوار مِری ماں…نفرت کےجزیروں سے محبّت کی حَدوں تک… بس پیار ہے، ہاں پیار ہے، ہاں پیار مِری ماں‘‘ تو میری ماں تو مجسّم ممتا ہے۔ انہوں نے میرے لیے تو جو کچھ کیا، کو ئی حد شمار ہی نہیں۔ مجھے دوبارہ زندگی کی طرف راغب کیا، ٹوٹا ہوا تعلیمی سلسلہ بحال کروایا، ملازمت کرنے کی تحریک دی اور پھر میری دوسری شادی… جب کہ اس سارے عرصےمیں انہوں نے اپنی نواسی کو اپنی اولاد سے بھی کہیں زیادہ محبّت و شفقت سے پالا۔ پلوشہ آج بھی مجھ سے زیادہ اپنی نانو کی لاڈلی ہے اور امّی بھی بڑی فخر سے کہتی ہیں کہ اصل سے سود پیارا ہوتا ہے۔‘‘
’’یوں تو والدین خاص طور پر ماں کی ایک رات کا قرض ادا نہیں ہو سکتا، لیکن کیا کبھی اپنی بہادر ماں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا خیال آیا؟‘‘ہم نے پوچھا، تو سلمیٰ کی آواز گلوگیر ہوگئی۔ ’’ماؤں کا قرض تو مَرکے بھی ادا نہیں ہوسکتا۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ اولاد اپنی ذات سے اُنہیں کوئی ایسا رنج نہ پہنچائے کہ خدانخواستہ اُن کی آنکھ بھر آئے یا دل سے کوئی آہ نکل جائے۔ اُن کی جس حد تک خدمت ہو سکے، کرکے اُن کی دُعائیں لینی چاہئیں اور صدشُکر، مَیں نےاُن کی بہت دُعائیں لی ہیں۔ زندگی نے مجھے ایک بار نہیں، دو بار سخت آزمایش میں مبتلا کیا۔ ایک تو پہلی ناکام شادی اور دوسری امّی کے بریسٹ کینسر کی تشخیص، بخدا مَیں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتی کہ وہ کیا لمحات تھے، جب امّی کی رپورٹ آئی۔
یوں لگا، جیسے ہم پہ قیامت ٹوٹ پڑی ہے، مگر اپنی ماں کی دی ہوئی ہمّت ہی سے خود کو سنبھالا۔ امّی کا بہترین علاج کروایا۔ اپنی طرف سے اُن کی خدمت میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی اور پھر دن رات پروردگار کے حضور گِڑگِڑا گِڑگِڑا کےایسے دُعائیں کیں، گویا عرش ہلا ڈالا۔ یہاں تک کہ امّی سرطان کی آخری اسٹیج سے صحت یاب ہوکر لوٹیں۔ اللہ پاک اُن کا سایا ہمارے سَروں پر سلامت رکھے۔ اب بھی اگر کسی خوف سے رات کو اُٹھ بیٹھ جاتی ہوں، تو وہ یہی ہے کہ ’’اللہ نہ کرے، امّی کو کچھ ہوجائے۔‘‘ حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا میں والدین، اولاد کے رشتے سے زیادہ بےغرض، بے لوث کوئی رشتہ نہیں۔ شاید ہی کوئی اولاد ہو، جو خود اپنی آخری سانس تک اپنے والدین کو اپنے سامنے نہ دیکھناچاہتی ہو۔ اور پھر میری ماں جیسی ماں تو نصیب، مقدّر والوں ہی کو ملتی ہے۔‘‘
سلمیٰ خان سے تو کافی باتیں ہوگئیں، ہم نے پَری بی بی سے بھی اُن کے خیالات جاننا چاہےکہ اس ساری گفتگو میں وہ ایک ’’بیبی بچّی‘‘ کی طرف بڑی مؤدب سے رہیں۔ تو اپنی ماما کے لیے بات شروع کرتے ہی اُن کے لہجے سے جیسے شیرینی سی ٹپکنے لگی۔ ’’مَیں تو اپنی ماما کی پرچھائیں ہوں۔ نانو، میری خالا اور ماما کی خالائیں، پھوپھیاں وغیرہ یہی کہتی ہیں کہ مَیں اپنی ماما کابنا بنایا بچپن ہوں۔ مُسکراتا چہرہ، لمبےگھنےبال، تھوڑی ضدّی، نک چڑھی سی، مگر صاف گو۔ مَیں اپنی پڑھائی کے معاملے میں بہت حسّاس ہوں اور ماما بھی بالکل ایسی ہی تھیں۔ مَیں چاہتی ہوں کہ کلاس میں میرے سب سے اچھے مارکس آئیں اور ماما بھی ایسا ہی کرتی تھیں۔
ہاں، نانو ماما پہ زیادہ سختی نہیں کرتی تھیں، مگر ماما مجھ پر تھوڑی سختی کرتی ہیں۔ مَیں اپنی پسند کی ڈریسنگ کرنا چاہتی ہوں، مگر ماما اپنی پسند کے کپڑے پہناتی ہیں۔ دوپٹا صحیح سے نہ لوں تو ٹوکتی ہیں اور کبھی کبھی لوگوں کے سامنے کوئی بات کرنے پر بھی غصّہ ہوجاتی ہیں۔ پھر اکیلے میں بٹھا کر سمجھاتی ہیں کہ ’’بیٹا! آپ کو وہاں یہ بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔‘‘ اور مَیں اُن کی بات مان لیتی ہوں، ظاہر ہے وہ میری ماما ہیں، میرے لیے کچھ غلط تو نہیں سوچ سکتیں ناں۔‘‘
ذہین و فطین، سلجھی ہوئی ماں کی سمجھ دار بٹیا نے اپنی زندگی کے خوش گوار ترین لمحات کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا ’’میری زندگی کا سب سے خُوب صُورت دن، یکم فروری، میری سال گرہ کا دن ہوتا ہے۔ تب مَیں خود کو دنیا کی خوش قسمت ترین بچّی سمجھتی ہوں، کیوں کہ میری کوئی ایک بھی سہیلی ایسی نہیں، جس کی سال گرہ اس قدر منفرد انداز سےمنائی جاتی ہو۔ میری سال گرہ کے دن ماما قرآن خوانی اور بہت بڑی محفلِ نعت کا اہتمام کرتی ہیں۔ اور اُس دن میں چیف گیسٹ ہوتی ہوں۔
ایک کیک مَیں اپنے اسکول میں کاٹتی ہوں اور ایک گھر میں کٹتا ہے، تو بہت مزہ آتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ مَیں بہت خاص ہوں اور یہ سب میری ماما اور میری نانو کی وجہ سے ہے۔ اسی لیے مَیں بھی کوشش کرتی ہوں کہ ان دونوں کا بہت خیال رکھوں۔ کبھی کبھی کسی بات پر ناراض بھی ہوجاتی ہوں، لیکن مجھے اپنی ماما کی خدمت کرنا بہت اچھا لگتا ہے۔ وہ تھک جاتی ہیں، تواُن کےلیےچائےبناتی ہوں۔ ڈاکٹرنےاُنہیں کھجور کا شیک پینے کو کہا ہے، تو وہ بنا کے دیتی ہوں۔ اُن کے برتھ ڈے اور مدرز ڈے پر اُنہیں سرپرائز کرتی ہوں۔ بابا سے اچھا سا گفٹ منگوا کے اُنہیں دیتی ہوں۔
اُن کےلیے کارڈز بناتی ہوں اور مجھے پیانو بجانا آتا ہے، تو اُس پر برتھ ڈے کی دُھن بجا کر اُنہیں وِش کرتی ہوں اور میری دل سے دُعا ہے کہ میری ماما ہمیشہ بہت خوش رہیں۔ مَیں اُن کے لیے جو کر سکتی ہوں، ضرور کروں اور بڑی ہو کر اُن کے ہر دُکھ، درد کا مداوا بن جاؤں۔ اور…مَیں مدرز ڈے پر اپنی ماما کو چند اشعار بھی ڈیڈیکیٹ کرنا چاہتی ہوں ؎ رحمت سے بنی ہے، یہ محبّت کی گھٹا ہے …سایہ ہے اُس کے تخت کا، جنّت کی ہوا ہے …بَھرتی ہے اندھیروں میں وفاؤں کے اُجالے …روشن ہےجو سورج سے زیادہ، وہ دِیا ہے…جاتی ہے لے کےہر دُعاعرشِ بریں پہ ماں …اللہ کا احسان ہے اہلِ زمیں پہ ماں‘‘۔