• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ویکسین تیار ہو یا نہ ہو، انسانوں کو کورونا کے ساتھ زندہ رہنا سیکھنا ہوگا، ماہرین

اس وقت دنیا کے زیادہ تر ممالک میں لاک ڈاؤن کے باعث لوگ گھروں میں بیٹھے ہیں جبکہ کروڑوں افراد اپنے ذریعہ معاش کھوچکے ہیں، تاہم ایسے  میں عوامی شخصیات ویکسین کی تیاری کے حوالے سے کامیابی کا اعلان بھی کرتے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ سب کچھ ختم کردینے والی یہ عالمی وبا ختم ہونے کو ہے۔

امریکی ویب سائٹ کے مطابق لیکن دوسری جانب بدترین امکان یہ بھی موجود ہے کہ دنیا اس وبا سے نجات کے لیے کبھی کوئی ویکسین تیار ہی نہ کرسکے۔ یہ وہ صورتحال ہے کہ اس میں لوگوں کی امیدیں کبھی بڑھ جاتی ہے تو کبھی بالکل ہی ٹوٹ جاتی ہے۔

اس وبا سے نمٹنے کے لیے مختلف حل و تجاویز سامنے آتے رہتے ہیں۔ لیکن بعض ماہرین کہتے ہیں کہ بجائے اس کہ کورونا وائرس کو ہم مکمل طور پر ختم کریں دنیا کو اس کے ساتھ رہتے ہوئے زندگی گزارنے کے بارے میں بھی سیکھنا چاہیے۔

یہ بھی کہا جارہا ہے کہ دنیا بھر کے شہر آہستہ آہستہ کھلیں گے کچھ آزادیاں پھر واپس آجائیں گی، لیکن  یہ اسی وقت ممکن ہے جب ماہرین کی سفارشات کے تابع رہا جائے۔ قلیل المدت حل تو یہ ہوگا کہ ٹیسٹنگ اور فزیکل ٹریسنگ اب ہماری زندگی کا حصہ بن جائے گا۔ لیکن بعض ملکوں میں اچانک کسی وقت بھی سیلف آئسولیٹ کرنے کے احکامات آئیں گے۔

ممکن ہے علاج تو دریافت کرلیا جائے، لیکن بیماری (وبا) کے ہر سال پھوٹ پڑنے کا سلسلہ جاری رہ سکتا ہے اور عالمی سطح پر اموات کا سلسلہ اوپر کی جانب جانے کا امکان بھی موجود رہ سکتا ہے۔

 یہ سیاست دانوں کا طریقہ تو ہوسکتا ہے کہ وہ خوش فہمی پر مبنی اعلانات کریں کہ ویکسین تیار ہے اور انسانوں پر اس کی آزمائش جاری ہے، لیکن اس امکان کو بہت سارے ماہرین بہت ہی سنجیدگی سے دیکھتے ہیں، کیونکہ ایسا پہلے بھی متعدد مرتبہ ہوچکا ہے۔

امپریل کالج لندن کے شبعہ گلوبل ہیلتھ کے پروفیسر، ڈاکٹر ڈیوڈ نبارو کا کہنا ہے کہ بہت سارے ایسے وائرس موجود ہیں جن کے خلاف ہم اب تک کوئی ویکسین تیار نہیں کرسکے ہیں۔

واضح رہے کہ ڈاکٹر ڈیوڈ نبارو کورونا وائرس کے حوالے سے عالمی ادارہ صحت کے خصوصی نمائندے کے طور پر بھی کام کررہے ہیں۔

 انہوں نے کہا کہ ہم قطعی طور پر یہ مفروضہ پیش نہیں کرسکتے کہ ویکسین ہر صورت تیار ہوجائے گی، یا آنے والی ہے، چاہے یہ تمام ٹیسٹ، تاثیر اور حفاظتی اقدامات کو پاس کرلے۔

 انہوں نے امریکی ٹی وی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اب یہ انتہائی ضروری ہو گیا ہے کہ انسانی معاشرے دنیا میں ہر جگہ اپنے آپ کو ذہنی طور پر تیار کرلیں کہ انہیں خود کو کورونا وائرس کے مستقل خطرے سے محفوظ رکھنا ہے، اور اب انہیں اپنی سماجی زندگی اور معاشی سرگرمیوں کو اس انداز میں ترتیب دینا ہے کہ ان کے ذہن میں یہ ہو کہ کورونا وائرس کا خطرہ موجود ہے۔ 

ادھر امریکا کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف الرجی اینڈ انفیکشینز ڈیزیز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر انتھونی فوسی کہتے ہیں کہ ویکسین ایک سے ڈیڑھ برس میں تیار ہوجائے گی۔ اسی طرح انگلستان کے چیف میڈیکل آفیسر کرس وٹی بھی کچھ اسی قسم کے خیال کے حامی ہیں۔

تازہ ترین