یو اے ای میں کورونا وائرس کی وجہ سے پھنسے ہوئے پاکستانی مشکل صورت حال سے دوچار ہیں۔ سفارت خانہ پاکستان یا قونصلیٹ دبئی میں حکومتی سفارت کاروں سے بات کریں تو کہتے ہیں، صبر کرو، عالمی وبا ہے، بس اسی طرح پاکستانیوں کو تسلی اور دلاسے دے رہے ہیں۔ ساتھ ساتھ یہ بھی اپیل کرتے ہیں کہ وزیراعظم فنڈ میں دل کھول کر عطیات دیں کیونکہ اوورسیز پاکستانی ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں۔ ان سفارت کاروں کو کیا پتا کہ ہمارا قیمتی اثاثہ خصوصاً جو وزٹ یا ٹرانزٹ ویزا پر یہاں آئے تھے ان کے ویزے کی معیاد میں حکومت یو اے ای نے توسیع کا اعلان کردیا ہے، جو دسمبر 2020 تک متحدہ عرب امارات میں قانونی طور پر رہ سکتے ہیں،لیکن یہاں رہنے کے لیے ان کی رہائش اور خوراک کا خرچ کون اٹھائے گا۔ پاکستانی سفارت خانہ مدد کرنے سے قاصر ہی رہا ہے اور نہ ہی ان کے پاس ایسے کوئی فنڈز موجود ہیں، جو پاکستانیوں کو دے سکیں۔
امارات میں مقیم 40 ہزار سے زائد پاکستانی اخراجات نہ ہونے اور ملازمت سے برطرفی کی وجہ سے پاکستان جانا چاہتے ہیں۔ یو اے ای حکام نے بھی پاکستانی حکومت پر دبائو ڈالاہے کہ ان پاکستانیوں کو جلد ازجلد واپس پہنچانے کا بندوبست کریں۔ اس سلسلے میں پاکستان میں یو اے ای کے سیکریٹری اول جمعہ الکعبی نے مشیر برائے اوورسیز پاکستانیز زلفی بخاری سے ملاقات کی۔ لیبر منسٹر یو اے ای نے بھی مشیر زلفی بخاری سے یو اے ای سے ویڈیو لنک پر بات کی جس میں پاکستانی حکومت کی جانب سے تین مطالبات رکھے گئے کہ یو اے ای حکومت پاکستانی ملازمین کا خود تحفظ کرے گی۔ یو اے ای کا ویزے کی معیاد میں توسیع کا اعلان، ملازمتوں سے برطرف پاکستانیوں کو مکمل تنخواہ دیا جانا، یو اے ای کمپنیاں پاکستانی ملازمین کو ائیر ٹکٹ کا خرچ دینے کا پابند کرنا، جو پاکستانی یو اے ای رکنا چاہیں انہیں قانونی تحفظ دیا جائے گا، پاکستانی ملازمین کو ترجیحی بنیاد پر ورچوئل روزگار فراہم کیا جائے گا۔
یو اے ای وزیر ہیومن ریسورس نے اظہار تشکر کرتے ہوئے بھرپور رابطے رکھنے اور ساتھ دینے کا شکریہ ادا کیا۔ اس کے ساتھ پاکستان نے ابتدائی طور پر پاکستان سے یو ای اے کے لیے گیارہ فلائٹوں کا شیڈول جاری کیاہے۔ جس میں یو اے ای سے کراچی کے لیے 2، اسلام آباد 3، ملتان 2، لاہور 2 اور ملتان کے لیے 2 پروازیں چلانے کا اعلان کیاہے۔ پی آئی اے حکام اور پاکستانی سفارتی حکام نے آپریشن تیز کردیاہے۔ ہر پاکستانی سب سے پہلے پاکستان جانا چاہتا ہے۔ پی آئی اے نےان سے عام حالات سے تین گناہ زیادہ ریٹ پر ٹکٹ جاری کرنا شروع کئے اور جن کے پاس پہلے سے بک ٹکٹ موجود تھے، انہیں کسی کھاتے میں نہیں ڈالا، بلکہ نقد 1500 درہم جمع کروانے پر ہی ٹکٹ جاری کئے گئے۔
اب انہیں یو اے ای سے لے کر جاکر قرنطینہ میں سات دن تک رکھاجائے گا جس کا علیحدہ 3500 روپیہ اور ٹرانسپورٹ اخراجات بھی دینا ہوں گے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی جو قیمتی اثاثہ ہیں ان کے ساتھ یہ سلوک کسی طور پر بھی مناسب نہیں ہے۔ وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے اعلان کیا تھا کہ تمام تر اخراجات حکومت پاکستان برداشت کرے گی لیکن سب کچھ اس کے برعکس ہورہاہے۔ 500 درہم کی ٹکٹ 1500 درہم میں دیے جارہےہیں۔ پاکستانی مجبوری میں یہ رقم ادا کررہے ہیں۔
ادھر قونصل جنرل آف پاکستان کہہ رہے ہیں کہ جو پاکستانی پریشانی کا شکار ہیںوہ قونصلیٹ نہ آئیں۔ انہیں فون پر ہی اطلاع دی جائے گی۔ پاکستان جانے والے مسافروں کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن پروازیں بہت کم ہیں۔ دبئی میں لاک ڈائون سخت ہے اور بلا جازت اور بلا پرمٹ باہر نکلنے پر پابندی ہے۔ باہر نکلنے پر ماسک پہننا ضروری ہے۔ اس کے برعکس بہت سے پاکستانی ،قونصلیٹ کے باہرجمع ہوکر قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ پاکستان فوری بھیجنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ دبئی حکومت نے بھی منع کیا ہے، بلکہ جرمانے کئے ہیں کہ گھروں میں رہیں۔ سماجی فاصلہ رکھیں۔ دبئی میں جہاں حکومت دبئی گھروں میں راشن اور خوراک مہیا کررہی ہے۔ وہاں 4 پاکستانی ریسٹورنٹس بھی فون کال کر کےفری کھانا گھروں پر ڈیلیور کررہے ہیں۔ حکومت پاکستان کو بھی ہزاروں میل دور قیمتی سرمایہ اوورسیز پاکستانیز کا درد، مشکلات اور تکلیف کو محسوس کرنا چاہئے۔
اس سلسلہ میں جب میں نے اسلام آباد میں وزارت خارجہ کے حکام سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ یو اے ای سے پاکستان آنے والے خواہشمندوں کی تعداد 40 ہزار کے قریب ہے۔ انہیں ہفتہ یا پندرہ دنوں میں بذریعہ ہوائی جہاز لانا ممکن نہیں ہے۔ انہیں پاکستان لانے میں 40 سے 60 دن لگ سکتے ہیں۔ روزانہ تقریباً 800 مسافروں کو لایا جاسکتا ہے۔ متحدہ عرب امارات کی قومی ایئر لائن بھی پاکستانی مسافروں کو واپس لے جانا چاہتی ہے، لیکن حکومت پاکستان دوسری ایئر لائنز کو پاکستان میں اترنے کی اجازت نہیں دے رہی۔
حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ اتنے زیادہ لوگوں کو ٹیسٹ کرنے اور قرنطینہ میں رکھنے کے ہمارے پاس انتظامات نہیں ہیں۔ شارجہ اور ابوظہبی کی قومی ایئرلائنز بھی پاکستانیوں کو واپس لے جانا چاہتی ہیں لیکن ان کو بھی حکومت اجازت نہیں دے رہی۔ ایسی صورت حال میں یہاں مقیم پاکستانی بے حد پریشان اور بے بس ہیں۔ ادھر پی آئی اے حکام دلاسے دے رہے ہیں کہ جلد ہی پروازوں کی تعداد بڑھائی جارہی ہے اور جمبو طیارے جن میں زیادہ مسافروں کی گنجائش ہے چلائے جائیں گے۔ ان ہی دلاسوں، وعدوں اور بیانات پر یہاں مقیم پاکستانی امید رکھے ہوئے ہیں کہ جلد وہ پاکستان چلے جائیں گے۔ پی آئی اے پہلی فلائٹ صرف 200 مسافروں کو اسلام آباد لائی ہے۔ جب کہ حکومت متحدہ عرب امارات نے 400 مسافروں کے لیے دو چارٹر جہاز نہ صرف مہیا کئے بلکہ تمام اخراجات بھی حکومت دبئی نے ادا کئے۔
اگر حکومت پاکستان کے پاس فنڈز موجود نہیں ہیں تو یہاں سفارتی مشن میں ویلفیئر اور تعلیم کے نام پر جو رقوم اوورسیز سے لی جاتی ہیں وہ ایک بہت بڑی رقم سفارت خانہ اور قونصلیٹ میں موجود ہے یہ رقم اگر اس مشکل وقت میں اوورسیز کے کام نہیں آئےگی تو کس وقت کام آئے گی۔ یہ رقم اوورسیز سے ہی ویلفیئر کے نام پر وصول کی جاتی ہے۔ اوورسیز پاکستانیز پر ہی خرچ کی جانی چاہئے بلکہ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ بیرون ملک سے آنے والے اخراجات مسافروں کو خود برداشت کرنا ہوں گے۔ غریب مسافروں کو حاجی کیمپ میں مفت کھانا دیا جائے گا۔ ان حالات میں جب پاکستانی واپس اپنے وطن جارہے ہیں، ان کی پوری سہولیات اور اخراجات حکومت پاکستان برداشت کرے۔