جنوبی ایشیا میں شامل جتنے ملک ہیں، وہاں کے مقامی ادیبوں نے انگریزی میں جتنا بھی ادب تخلیق کیا، اس کو عالمی ادب میں انگریزی کا جنوب ایشیائی ادب کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں انگریزی میں ادب تخلیق کرنے والے ناول نگاروں اور افسانہ نگاروں کی فہرست زیادہ طویل تو نہیں ہے، لیکن جب بھی اس پہلو سے بات نکلتی ہے تو اس میں سب سے نمایاں اور ابتدائی نام’’بپسی سدھوا‘‘ کا ہے، جنہوں نے 70 کی دہائی کے آخری برسوں میں ناول نگاری کی ابتداکی اور اب تک فعال ہیں۔ ’’بپسی سدھوا‘‘ 1938 میں پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں پیدا ہوئیں۔
ان کا تعلق گجراتی پارسی گھرانے سے ہے، کچھ عرصے بعد اپنے خاندان کے ہمراہ لاہور منتقل ہوگئیں، پھر زندگی کا ایک طویل حصہ لاہور میں ہی گزارا۔ 1957 کو لاہور میں خواتین کے مشہور کالج ’’کنیئرڈ کالج‘‘ سے گریجویشن کیا۔ 1947 میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا، تو اس وقت ان کی عمر 9 سال تھی۔ا ن کی پہلی شادی ناکام رہی، البتہ دوسری شادی کے بعد خوشگوار ازدواجی زندگی کا سفر شروع کیا۔ تین بچوں کی پرورش کے ساتھ ناول نگاری کی ابتدا بھی کی۔
انہوں نے ہمیشہ انگریزی زبان میں لکھنے کو ترجیح دی، لیکن عام زندگی میں اپنی مادری زبان گجراتی اور قومی زبان اردو بولنے کو ترجیح دی۔ 1982سے وہ اپنے خاندان کے ہمرا ہ امریکا کے شہر ہیوسٹن میں رہائش پذیر ہیں۔ وہاں لکھنے پڑھنے کے ساتھ ساتھ تدریس کے پیشے سے وابستہ رہیں، متعدد امریکی جامعات میں تدریس کے فرائض انجام دیے، جن میں ہیوسٹن یونیورسٹی، کولمبیا یونیورسٹی اور دیگر شامل ہیں۔کئی امریکی جامعات میں ان کا پہلا ناول ’’آئس مین کینڈی‘‘ بطور نصاب بھی شامل ہے۔ ان دنوں’’بپسی سدھوا‘‘ کی زندگی پر ایک دستاویزی فلم تیار کی جا رہی ہے، جس کو انہوں نے خود ہی لکھا ہے اور اس میں اپنی زندگی کے بارے میں گفتگو بھی کی ہے۔ اس کو ہم ان کی ویڈیو بائیوگرافی بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس کی نمائش 2021 میں متوقع ہے۔
ان کی تخلیقی زندگی پر ایک نظر ڈالی جائے تو ستر کی دہائی کے آخری برسوں میں اپنے ادبی سفر کی شروعات کیں۔ ان کا پہلا ناول’’کروایٹرز‘‘ تھا، اس کے بعد’’برائڈ‘‘ شائع ہوا، پھر ’’آئس کینڈی مین‘‘ چھپا، جس کا مرکزی خیال ہندوستان کی تقسیم اور قیام پاکستان تھا۔ انہوں نے تقسیم کے دنوں کی جو بھی پرچھائیاں ان کے دل و ذہن پر تھیں، ان کو رقم کیا، اپنے ذاتی تجربات سے بھی ناول کے کرداروں میں رنگ بھرے، ہم کہہ سکتے ہیں، اس ناول میں ان کی سوانح بھی جھلکتی ہے، جس کے ذریعے اس وقت کے لاہور کو محسوس کیا جاسکتا ہے، اس خطے کے رہنے والوں کی ذاتی زندگیوں پر تقسیم سے کیا اثرات مرتب ہوئے، کیا تبدیلیاں آئیں، ان باریکیوں کو یہ ناول بیان کرتا ہے۔
اپنے طویل ادبی کیرئیر میں’’بپسی سدھوا‘‘ کچھ نہ کچھ لکھتی رہتی ہیں، جس میں ان کے ناول، مختصر کہانیاں، مضامین اور بلاگز شامل ہیں۔ لاہور کی زندگی کو یادکرتے ہوئے انہوں نے کچھ تحریریں لکھیں، ان تحریروں کا مجموعہ 2006 میں شائع ہوا۔ 2013 میں ان کی انگریزی کہانیوں کا نیا انتخاب’’دیئر لینگونج آف لوّ‘‘ بھی ریڈنگز بکس ، لاہور نے شائع کیا، جبکہ اسی ناشر نے 2012 میں ان کے معروف ناول’’کروایٹرز‘‘ کا اردو ترجمہ ’’جنگل والا صاحب‘‘جو محمد عمر میمن نے ترجمہ کیا، اس کوبھی چھاپ دیا ہے۔’’بپسی سدھوا‘‘کی کتابیں پاکستان کے علاوہ، انڈیا، امریکا، انگلینڈ، اٹلی اور دیگر یورپی ممالک میں بھی نئے ایڈیشنز کے ساتھ شائع ہوچکی ہیں۔
ان کی مختلف کہانیوں پر امریکا اور یورپی ممالک میں تھیٹر کے کھیل پیش کیے جاچکے ہیں۔ ان کے دو ناولوں’’آئس کینڈی مین‘‘ اور’’واٹر‘‘ پر دو فلمیں بھی بن چکی ہیں۔ ہم نے یہاں ان کے ناول’’آئس مین کینڈی‘‘کا انتخاب کیا ہے، جس کاایک ایڈیشن امریکا اور انڈیا میں ’’کریکنگ انڈیا‘‘ کے نام سے بھی شائع ہوا اور اسی پر بھارتی نژاد کینیڈین فلم ساز’’دیپا مہتا‘‘ نے فلم’’ارتھ‘‘ بنائی، جبکہ ان کے ناول’’واٹر‘‘ پر بھی وہ مساوی نام سے فلم بنا چکی ہیں۔ اس ناول اور فلم کی حیثیت متنازع ہے، یہی وجہ ہے، پاکستان میں اسے بہت زیادہ توجہ نہیں ملی۔
’’بپسی سدھوا‘‘ کا ناول’’آئس مین کینڈی‘‘ برطانیہ اور پاکستان میں 1988 میں شائع ہوا، اس کے بعد 1991 میں امریکا اور 1992 میں انڈیا میں شائع ہوا۔ اس ناول کا مرکزی خیال ایک کم عمر پارسی بچی کی کہانی ہے، جو اپنا ماضی یاد کر رہی ہے اور وہ دور بھی، جب ہندوستان کی تقسیم ہو رہی تھی، وہ لاہور میںاپنے خاندان کے ہمراہ مقیم تھی، تاریخ کے اس دوراہے پر، اس کے ہاتھ سے کیا چھوٹا، اس نے کیا کھویا اور پایا، رشتوں ناطوں کے پس منظر میں کہانی کو بیان کیا ہے، جس پر مصنف کی اپنی سوانح کی چھاپ بھی موجود ہے۔
اس ناول پر بنائی گئی فلم’’ارتھ‘‘ میں معروف فنکاروں عامر خان، نندیتا داس اور راہول کھنہ نے اداکاری کی ہے، جبکہ شبانہ اعظمی کی آواز کو صداکاری کے طور پر فلم میں شامل کیا گیا ہے۔ فلم کی موسیقی معروف بھارتی موسیقار اے آر رحمان نے دی ہے۔ فلم کو پسند کیا گیا اور یہ کئی اہم اعزازات حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ ہندوستان میں تقسیم کے موضوع پر یہ اہم فلموں میں سے ایک سمجھی جاتی ہے، لیکن جس طرح ناول کا تصوراتی دائرہ وسیع ہے، فلم اس ہدف کو حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے اور پاکستان میں اس کی نمائش بھی کبھی نہ ہوسکی۔