• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:محمد سعید مغل۔۔برمنگھم
میں کئی دہائیوں سے لیڈر شپ کے قصور برا یا بھلا کا مشاہدہ کررہا ہوں خاص کر سیاست دانوں کو برا بھلا کہا جاتا ہے۔ زیادہ قصوروار ہماری عوام ہے۔ وہ اچھے اور برے کی پہچان نہیں کرتے جو دن رات جھوٹ، مکر و فریب اور غریبوں کے حق کو غصب کرتا ہےاس کو ہم لیڈر
تصور کرتے ہیں۔ مثلاً عدالت سے سزا یافتہ شخص جب اپنی سزا کاٹ کر جیل سے رہا ہوتا ہے تو اس کے عقیدت مند اور چاہنے والے جیل کے باہر پھولوں کے گلدستے اور ہار لیے کھڑے ہوتے ہیں اور درجنوں ہار ڈال کر ڈھول کی تھاپ پر ڈانس اور بھنگڑے ڈالتے ہوئے کندھوں پر اٹھائے جلوس کی شکل میں لاتے ہیں جیسے کوئی سپہ سالار ہو۔ ایک سزا یافتہ شخص کا اتنا بڑا استقبال مذاق نہیں تو اور کیا ہے۔ ہمارے ملک کا یہ رواج بن چکا ہے کہ جو جتنا بڑا فراڈیا، کرپٹ اور جھوٹا ہوگا اسے ہم اپنا لیڈر بنالیتے ہیں۔ ہمارے ملک میں ایک اور رواج بھی زور پکڑ رہا ہے کہ اگر کوئی بااثر شخص اپنی ڈیوٹی یا نوکری سے بغیر بتائے غیر حاضر ہے تو غلطی سے جب سینئر آفیسر پوچھتا ہے کہ بھائی کل کام پر نہیں آئے تو وہ جواباً برا منایا جاتا ہے، پھر ایسے بااثر لوگ دوسرے دن ہڑتال یا احتجاج کی کال دے دیتے ہیں، پھر دفتر بند، کام کاج بند، نعرہ بازی شروع ہوجاتی ہے اور پھر صحافی حضرات خوب فائدہ اٹھاتے ہیں جو بھی سرگرمی ملکی قانون کے خلاف شروع ہو میڈیا خوب نمایاں تشہیر کرتا ہے اور صحافی برادری نے تو وتیرہ بنالیا ہے کہ کام ختم نہیں ہونے دینا، اسی میں ان کا مفاد وابستہ ہے۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ حکومت وقت ہر کام ان کی رائے کے مطابق کرے۔ بعض میڈیا نے تو ملک میں جھوٹ اور افواہوں کی فیکٹریاں کھول رکھی ہیں، کبھی سیاست دانوں کو بلیک میل کرتے ہیں، کبھی کاروباری لوگوں کو ہراساں کیا جاتا ہے اور اب انہوں نے اپنا دائرہ کار بیرون ملک وسیع کرلیا ہے۔ سفارت کاروں کو اپنی مرضی کی خبروں سے اپنا ہم نوالا اور ہم پیالا بناتے ہیں اور ان کی خوشامد میں حقائق کو منظرعام پر نہیں لاتے ہیں۔ حال ہی میں کورونا وائرس کے لاک ڈائون کی وجہ سے پی آئی اے نے اوورسیز پر جو زیادتیاں کی ہیں۔ میڈیا نےایک لفظ تک نہیں شائع کیا۔ کہاں گیا ایسے میڈیا کا سچ۔ دن رات جن کی ملازمت کرتے ہیں، ان کے تبصرے پڑھتے ہیں، عوام سے جو سلوک کیا جارہا ہے ایک لفظ بھی ان کے لیے شائع نہیں کیا جاتا۔پچھلے دنوں وزیراعظم پاکستان نے ٹیلی تھون فنڈز ریزنگ پروگرام کا اہتمام کیا جس میں پاکستان کے مختلف چینل کے اینکر پرسن اور میڈیا کے حضرات نے شرکت کی۔ دعا کی دعوت پاکستان کے معروف عالم دین مولانا طارق جمیل کو دی گئی۔ انہوں نے نہایت ہی خوب صورت انداز میں پاکستان کی سالمیت، ترقی اور خوشحالی کے لیے زبردست عاجزی سے دعا مانگی اور اس دوران انہوں نے قرآن اور حدیث کی روشنی میں دو جملے کہے کہ قوم اگر جھوٹ چھوڑ دے تو کوئی بیماری، وباء ہمارے نزدیک نہ آئے اور بہت سے معاشرتی مسائل بھی حل ہوسکتے ہیں۔ بلکہ کورونا جیسی وباء بھی ختم ہوسکتی ہے۔ مولانا طارق جمیل نے100فیصد درست کہا تھا۔ کچھ صحافی اور اینکر پرسن کو یہ جملے اچھے نہ لگے، وہاں تو وزیراعظم صاحب تشریف فرما تھے، خاموش رہے اور بعد میں چائے کی پیالی میں طوفان برپا کردیا اور مولانا طارق جمیل سے سوالوں کی بوچھاڑ کردی، جس پر انہوں نے بڑے حوصلے سے ایک ہی جواب میں خاموش کردیا، انہوں نے کہا، جناب میں بھی انسان ہوں، غلطی ہوگئی ہے، اگر میری بات سے دل آزاری ہوئی ہے تو میں معذرت کرتا ہوں۔ حالانکہ پاکستان کی عوام حالات کی نزاکت کو اچھی طرح سمجھتی ہے۔ان اینکرز کو اپنے گریبانوں میں جھانک لینا چاہیے تھا کہ وہ کتنا سچ بولتے ہیں۔ عزت اور ذلت اللہ کے پاس ہوتی ہے، میڈیا کے ذریعہ نہیں بنائی جاسکتی۔ صحافت کوئی مقدس گائے نہیں کہ جس کی ہر بات حرف آخر ہو۔ جب کسی کی پگڑی اچھالی جائے تو جواب تو دیا جاتا ہے۔ شیشے کے محل میں بیٹھ کر اگر دوسروں کو پتھر مارے جائیں گے تو یقیناً جواب ملتا ہے۔ عوام سچ سننا چاہتے ہیں، پچھلے تقریباً دو ماہ سے میر شکیل الرحمٰن کو تحقیقات کے سلسلے میں نیب نے گرفتار کیا ہے۔ اس پر سچ لکھیں تاکہ پوری قوم دیکھے۔
تازہ ترین