کراچی (ٹی وی رپورٹ)وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ بھارتی داخلی صورتحال سے توجہ ہٹانے کے لئے ایسی حرکتیں کررہا ہے ، بھارت کی کوشش فالس فلیگ آپریشن کی ہے ۔
ہماری حکومت نے کشمیر کی مسئلے کو دنیا کے سامنے رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ بھارت اپنی حرکتوں سے دنیا کے سامنے بے نقاب ہورہا ہے،اٹھارویں ترمیم پر ضرب لگانا ہمارا مقصد نہیں،کیا صوبوں نے وسائل نیچے منتقل کئے ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایک انٹرویو میں کیا ۔
شاہ محمود قریشی کاکہنا تھا کہ بھارت کی اکثریتی عوام خود مودی کے خلاف ہے ۔ لندن ہو یا پیرس یا پھر برلن ، بارسلونا ،میڈریڈ جس جگہ بھی چلیں جائیں آپ دیکھیں کہ پاکستانی کمیونٹی اور کشمیری کمیونٹی نے باہر نکل کر احتجاج کیا ہے اس سے پہلے یہ کہاں ہورہا تھا ۔
ہماری مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے کاوشوں کا ثبوت یہ بھی ہے کہ پچھلے سال اقوام متحدہ کے اجلاس میں وزیراعظم کی شرکت کے دوران ہزاروں افراد نے ان سے اظہار یکجہتی کیا ۔یہی وجہ ہے کہ کشمیر کا مسئلہ جس طرح سے آج فرنٹ پر ہے اس سے پہلے کبھی نہ تھا ۔
انہوں نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں لے جانے پر بات ہوئی تھی ، کشمیر کا مسئلہ یورپی یونین ، ہاؤس آف کامن میں بھی اٹھنا شروع ہوا پہلے اتنے موثر انداز میں کبھی کشمیر کا مسئلہ نہیں اٹھایا گیا ۔
مورل گراؤنڈ پر ہماری فتح کا منہ بولتا ثبوت سلامتی کونسل کی قراردادیں ہیں تاہم72سال سے مسئلہ نہ حل ہونے کی بہت سی اور بھی وجوہات ہیں ۔آپ یہ بھی دیکھیں کہ سقوط ڈھاکہ سے لے کر 88 تک کشمیر کا ذکر ہی نہیں ہوا۔
بالکل کشمیر میں نسل کشی ہوئی ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا جبکہ اس پر ہم نے واضح کہا ہے کہ انہوں نے ایک مسلم اسٹیٹ کو اقلیتی اسٹیٹ میں تبدیل کردیا ہے کیونکہ مودی حکومت کی سوچ آر ایس ایس کی سوچ ہے ،ہم نے ان چیزوں کو ہر جگہ پر اجاگر کیا ہے اور مزید کوشش بھی کررہے ہیں ۔
کلبھوشن کا مقدمہ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں وہیں سے ہائر کئے گئے وکیل سے لڑوانے اور لاکھوں ڈالرز فیس ادائیگی کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کہ پاکستان میں بھی ایسا ٹیلنٹ موجود ہے جو اس سے کہیں بہتر انداز میں جذبہ حب الوطنی کے تحت حکومت کو بہتر انداز میں اس مقدمے کے حوالے سے تیار ی کرکے دے سکتا تھا تو شاہ محمود قریشی کا ہنستے ہوئے کہنا تھا کہ ضرور مجھے بتایئے گا ان لوگوں کا نام جو جذبہ حب الوطنی کے تحت یہ مقدمہ لڑسکتے تھے ۔
احمر بلال صو فی ، سید شہاب قطب کے نام پر انہوں نے کہا کہ یہ شخصیات پاکستان کی کئی کیسز میں نمائندگی کرتی رہی ہیں تاہم ہمیں ان کے کوئی خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوئے اس لئے اس حوالے سے ریکارڈ کوئی اتنا شاندار نہیں ہے ۔
بھارت کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ معاملہ کوئی بھی ہو اس میں لیت و لعل سے کام لیا جائے ، معاملے کو لٹکا دیا جائے ۔ وہ قابض ہیں اس لئے وہ اپنے قبضے کو اور زیادہ موثر کرنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ اقلیت کو اکثریت میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں لیکن ہمیں اس کا توڑ کرنا ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں نے اپنے مفادات کو ترجیح دی اور کشمیر کو اہمیت نہ دی لیکن اب ہم کشمیر کو اہمیت دینے کی کوشش کررہے ہیں ۔
آئی پی پیز رپورٹ پبلک نہ کرنے کے سوال پر شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ آٹا اور چینی بحران کی رپورٹ پر کمیشن بنا اور اس حوالے سے وقت دیا گیا ہے جیسے ہی وقت مکمل ہوتا ہے وہ رپورٹ بھی سامنے آجائے گی ۔
انہوں نے اس امر کی بھی تردید کی کہ رپورٹ آنے میں چار مہینے لگ سکتے ہیں انہوں نے کہا کہ تین ہفتے کی مہلت دی گئی ہے کابینہ کی طرف سے کیونکہ 25 اپریل کو میعاد پوری ہونے پر کابینہ سے انہوں نے 3ہفتے مزید طلب کئے اور کابینہ نے ان کو تین ہفتوں کی مہلت دی ہے ۔
آئی پی پیز کی رپورٹ پبلک نہ ہونے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس پر ہم نے ایگزامن کیا ہے ،اور ایگزامن کرنے کے بعد یہ رائے سامنے آئی اور یہ اشارہ بھی ملا کہ جی ہم بیٹھ کر بات چیت کرنے کے لئے تیار ہیں کیونکہ ہماری معیشت پر جو اس کا بوجھ ہے اولین ہماری کوشش اس بوجھ کو کم کرنے کی ہے اور اس میں جو بھی بے ضابطگیاں ہیں وہ قانون سے بالاتر نہیں ہیں ۔
آئی پی پیز رپورٹ کو حکومت ہر پہلو سے دیکھ رہی ہے تاہم اگر یہ غلط فہمی ہے کہ کسی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے تو غلط ہے ، کسی بھی امتیاز سے بالا ہوکر احتساب تحریک انصاف کے منشور کا حصہ ہے ۔
تاہم رپورٹ پبلک ہونے اور نہ ہونے کا فیصلہ کیبنٹ نے کرنا ہے تاہم انتظار کریں اور دیکھیں ۔انہوں نے واضح کیا کہ آئی پی پیز رپورٹ پبلک نہ کرنے کے حوالے سے کسی ملک کی جانب سے کوئی پریشر نہیں ہے تاہم دیکھنا یہ ہے کہ مسئلے کو حل کرنے کا بہتر طریقہ کیا ہے ۔
آٹاچینی بحران میں جو بھی ملوث ہوگا جس کا بھی نام آئے گا اس کو قانون کے مطابق سامنا کرنا ہوگا اس میں تین ہفتے کی مہلت ہے دو ہفتے گزر چکے ہیں ایک ہفتے کا انتظار کیجئے ۔
18 ویں ترمیم کے سوال پروفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ اٹھارویں ترمیم پر ضرب لگانا ہمارا مقصد نہیں ہے ، صوبوں کے اختیارات سلب کرنا یا ان پر حملہ کرنے نہ پہلے ہمارا آبجیکٹو تھا نہ اب ہے ، مسئلہ یہ ہے کہ اپوزیشن کو اپنی سیاست کے لئے ایشوز درکار ہوتے ہیں۔
پیپلز پارٹی اسو قت اپنی کارکردگی کے لحاظ سے بہت پیچھے کی جانب دکھائی دے رہی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ 18 ویں ترمیم کو ایشو بنا کر سیاسی فضا کو اپنے حق میں کرنا چاہتی ہے۔
میں یہ پوچھنا چاہوں گا کہ کیا اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں نے وسائل نیچے منتقل کئے ، وزیراعظم نے کابینہ کی رائے کے بعد کئی فیصلوں پر نظر ثانی کی ہے ۔
کورونا ایشو پر سندھ اور وفاق میں اختلافات کے سوال پر انہوں نے کہا کہ اختلاف کی کوئی وجہ ہی نہیں ہے یہاں دو فورم ہیں ایک نیشنل کوآرڈی نیشن کمیٹی جس کی سربراہی وزیراعظم کرتے ہیں تاہم چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ سے ہر نکتے پر پوچھا جاتا ہے اور دوسرا نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر اس میں بھی تمام صوبوں کی نمائندگی ہیں ۔
لاک ڈاؤن کھولنے کے حوالے سے جو فیصلے ہوئے ہیں اس میں تمام وزرائے اعلیٰ کا ان پٹ شامل تھا ۔ آپ دیکھ لیں کہ پبلک ٹرانسپورٹ وزیراعظم کھولنا چاہتے تھے تاہم سندھ کو تحفظ تھا جس پر وزیراعظم نے اس فیصلے کو موخر کردیا ۔