یہ کالم 24مئی 2014کو انہی صفحات پر شائع ہوا، اگر آج چھ سال بعد بھی دیکھیں تو بالکل وہی حالات ہیں۔ چند سطور کی ترمیم کے بعد کالم دوبارہ نذرِ قارئین ہے۔
گزشتہ کئی دنوں سے میں شاداں و فرحاں ہوں اور میری مسرت کا کوئی ٹھکانہ نہیں، بات بہ بات قہقہے لگاتا ہوں، خوشیاں ہیں کہ سمیٹی ہی نہیں جا رہیں۔ صرف میں ہی نہیں بلکہ میرے ملک کا ہر شہری نہال ہو رہا ہے۔ اخبارات کا مطالعہ کرتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ جیتے جی جنت میں آگیا ہوں، ٹی وی چینل آن کرتا ہوں تو یقین نہیں آتا کہ واقعی یہ میرے وطن عزیز کا میڈیا ہے۔ ریموٹ کے بٹن دباتا چلا جاتا ہوں لیکن کسی تفریحی چینل پر نظر نہیں ٹکتی اور اس خوف سے کہ جس خواب کے سحر میں مَیں مبتلا ہوں کہیں ٹوٹ نہ جائے فوراً واپس نیوز چینل کی طرف آ جاتا ہوں کہ جہاں پر خبریں دیکھ کر اور اینکر پرسنز کی گفتگو سن کر دل کو ڈھارس ہوتی ہے کہ شکر ہے میری خوشیاں قائم و دائم ہیں کہ میرا ملک جہاں گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ ہوتی تھی وہاں توانائی کا بحران ختم ہو گیا ہے۔ تمام فیکٹریاں اور کارخانے بلا کسی توقف کے چل رہے ہیں مزدور خوشحال ہوگئے ہیں، کارخانہ داروں کو مزدور ڈھونڈے نہیں ملتے کہ آمدنیوں میں اس زیادتی کے باعث خط غربت سے بھی نیچے کی زندگیاں گزارنے والے طبقہ کی اکثریت معاشی انقلاب کے سبب گرمی کے اس موسم میں صحت افزا مقامات پر چلی گئی ہے۔ جی ڈی پی آئیڈیل سطح پر آگیا ہے۔ دنیا بھر میں ہماری مصنوعات کی مانگ بڑھ گئی ہے، کارخانے ان کی طلب پوری کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ ملک میں ہونے والی بیرونی سرمایہ کاری میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکہ، چین اور بھارت ہماری اس اقتصادی ترقی سے حیران و پریشان نظر آتے ہیں، نئے ڈیم بننے سے ملک میں پانی کی قلت پر قابو پا لیا گیا ہے۔ تمام بنجر علاقے آباد ہو گئے ہیں، صحرائے تھل، چولستان کی ہریالی دیدنی ہے۔ کسانوں کی خوشحالی دیدنی ہے۔ ریلوے، پی آئی اے، اسٹیل مل اور اس طرح کے خسارے میں چلنے والے دیگر ادارے منافع بخش بن گئے ہیں اور یہاں پر کام کرنے والے مزدوروں کو سالانہ 12،12 الائونسز دیے جا رہے ہیں، پینے کے صاف پانی کا مسئلہ تو رہا ہی نہیں، ہر گھر میں منرل واٹر فراہم کیا جا رہا ہے۔
غربت، افلاس ماضی کے قصے بن گئے، اسپتالوں میں مریضوں کو فائیو اسٹار ہوٹلوں جیسی مراعات میسر ہیں، تمام امراض پر قابو پالیا گیا ہے۔ ڈاکٹر مریضوں کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں کہ جنہیں وہ ان جدید اسپتالوں میں لے جائیں۔ تعلیم کا مسئلہ تو سرے سے رہا ہی نہیں۔ کتابیں، کاپیاں مفت فراہم کی جا رہی ہیں، اسکولوں، کالجوں میں نہ صرف جدید لیبارٹریاں قائم ہو گئی ہیں بلکہ بچے بچیوں کو لانے لے جانے کا درد سر بھی حکومت نے اپنے سر لے لیا ہے۔ یونیورسٹیاں دھڑا دھڑ سائنسدان پیدا کر رہی ہیں۔ روٹی کپڑا مکان نجانے کس دور کی باتیں ہیں۔ ملک میں فرقہ پرستی کا نام و نشان نہیں رہا۔ ملاوٹ، گراں فروشی، ناجائز منافع خوری سے پاکستانی قوم نے جان چھڑا لی ہے، بڑھتی ہوئی آبادی اب ہمارا مسئلہ نہیں رہا، ہمیں تو اب ’’مین پاور‘‘ چاہیے۔ جہالت، غربت جیسے مسائل پر قابو پانے کی وجہ سے اب خود سوزی، خود کشیوں اور اس طرح کے دیگر مسائل نظر ہی نہیں آتے، نہ تو راہ چلتی خواتین کے ساتھ زیادتیاں ہو رہی ہیں اور نہ ہی اب غریب کی بیٹی کو مال مفت سمجھا جاتا ہے۔ پولیس فارغ بیٹھی ہے کہ جرائم اب ہوتے ہی نہیں، اگر کبھی کوئی سائل تھانے میں آجائے تو پورا عملہ اُس کی خاطر مدارت میں لگ جاتا ہے اور اس کا دل ہی نہیں چاہتا کہ وہ واپس جائے۔ اکثر لوگ تو اب چھٹی گزارنے تھانے چلے جاتے ہیں کہ چلو مفت میں کھا پی آئیں گے۔ عدالتیں ویران پڑی ہیں تمام مقدمات کے فیصلے ہو گئے۔ انصاف لوگوں کو دہلیز پر میسر ہے۔ مقدمات نہ ہونے سے وکلا بیروزگار ہوگئے ہیں جن کے لئے حکومت خصوصی الائونسز مقرر کر رہی ہے۔ اساتذہ کے مسائل حل ہو گئے ہیں، دانشوروں کو کوئی مسئلہ نظر نہیں آتا۔ صرف سائنس ٹیکنالوجی اور دیگر ایجادات کے بارے میں مضامین لکھ لکھ کر وہ تنگ آگئے ہیں۔ ہم دفاعی لحاظ سے اتنے مضبوط ہو گئے ہیں کہ امریکہ، چین، برطانیہ اور دیگر ممالک کی گھگی بندھی ہے اور ہر وقت ہاتھ باندھے غلام ابن غلام بنے نظر آتے ہیں۔ انڈیا اور اسرائیل تو اپنے ممالک کو ہمارا زیر نگیں بنانے کیلئے سفارشیں ڈھونڈ رہے ہیں۔ متوسط طبقے کی پریشانیاں قصہ پارینہ بن چکیں گویا پورے ملک میں گھی کے چراغ جل رہے ہیں۔ قوم کو مبارک ہو کہ ہمارے سیاستدانوں، صحافیوں، دانشوروں اور کالم نویسوں نے ہمارے ملک کو جنت نظیر بنا دیا۔ اب صرف ایک ہی مسئلہ رہ گیا ہے جو فلاحی ریاست کے ’’ماموں، چاچوں‘‘ کے لئے پریشانی کا باعث ہے جس پر بول بول کر چند مخصوص لوگ ہلکان ہو رہے ہیں۔ کچھ میڈیا ہائوسز کے مالکوں کی نیندیں اچاٹ ہو چکی ہیں اور بعض ادارے اس میں اُلجھ کر رہ گئے ہیں اور وہ ہے ’’جنگ جیو کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن اور ان کا ادارہ جو آزادی صحافت کا علمبردار ہے، کیسے بند کیا جائے‘‘۔ اور یہ مسئلہ اتنا اہم ہو گیا ہے کہ تمام قومی مسائل پس پشت چلے گئے ہیں۔ ناصرف ملک بلکہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے کسی کو اس سے کوئی واسطہ نہیں۔ جنگ گروپ کو صحافت کے اصول سکھانے والوں نے کیا خود یہ سبق پڑھا ہے جس کا پرچار آج کل وہ ٹاک شوز میں کر رہے ہیں۔ جیو کی بندش کا مطالبہ کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے۔ اگر اس ستون کی چھت ’’جنگ جیو گر گئی‘‘ تو جرنلزم کی ساری عمارت ملبے کا ڈھیر بن جائے گی اور اس ڈھیر پر وہ لوگ حکمرانی کریں گے جو اب دور بیٹھے ڈوریاں ہلا رہے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)