دنیا بھر میں پھیلی وبائی بیماری کوروناوائرس (کووڈ -19) پر قابو پانے اور اس سے ہونے والے اموات کو روکنے کے لیے کسی خاص مدد کا سہارا لینا پڑے گا ۔یوں تو آرٹیفیشل انٹیلی جنس (مصنوعی ذہانت ) کا سائنس کے میدان میں بڑ ااہم کردار ہے لیکن کورونا وائرس کے خاتمے میں اس نے کیا کام انجام دیا ہے ،اس کا ریکارڈ موجود ہے۔ کیا مصنوعی ذہانت اس خطر ناک بیماری کا علاج دریافت کرنے میں مدد گار ثابت ہو سکتی ہے ؟متعدد کمپنیاں یہ مسئلہ حل کرنے میں سر گرداں ہیں ۔آکسفورڈمیں قائم کمپنی ایکسینٹیہ ،جس نے پہلی مرتبہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے دریافت ہونے والی دوائی کا تجربہ انسانوں پر کیا تھا ،کیلی فورنیا کے اسکر یپس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میںموجود 15 ہزار ادویات کی تحقیق میں مصروف ہے ۔ویا گرا کے تخلیق کار ڈاکٹر ڈیوڈ برائون کی قائم کردہ کیمبرچ کمپنی ہیلکس نے غیر معمولی بیماریوں کے لیے ادویات ڈھونڈنے کے لیے مصنوعی ذہانت کے نظام کا رخ موڑ دیا ہے۔ اب ان کا مقصد کورونا کا علاج دریافت کرنا ہے۔
ڈاکٹر براؤن کا کہنا ہے کہ نت نئی دائوں کو متعارف کرانے میں مصنوعی ذہانت تیز رفتار ثابت ہورہی ہے ۔ڈاکٹر برائون کے مطابق مطلوبہ اعداد وشمارجمع کرنے میں کئی ہفتے لگے ہیں ۔اور کچھ نئی معلومات بھی ملی ہیں۔لہٰذااب ہمارےپاس بڑے پیمانے پر ڈیٹا موجود ہے۔ایسٹر پر الگورتھم کو چلایا گیا اور اگلے چنددنوں میں ہمارے پاس نتائج موجود ہوں گے ۔ہیلکس کا کہنا ہے کہ ان معلومات کی روشنی میں رواں مہینے تک ممکنہ ادویات کی ایک فہرست تیار کرلی جائے گی ،پھر لیبارٹریز میں ان کے کلینیکل ٹرائلز کیے جائیں گے ۔ان کا مزید کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے کورونا وائرس کا علاج دو طر ح سے کیا جاسکتا ہے ایک تو یہ کہ مکمل طور نئی دوا تیار کی جائے لیکن اس کے محفوظ استعمال کے لیے کئی سال انتظارکرنا پڑے گا اور دوسرا یہ کہ موجودہ دوائیوں کو دوبارہ نئے مقصد کے ساتھ تیار کرنا ۔
لیکن ایک طر ف ڈاکٹر برائون کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ بات حتمی طور پر نہیں کہی جاسکتی ہے کہ اس وباکا علاج ایک ہی دوائی سے ممکن ہے یا نہیں ۔امپیریل کالج میں قائم انسٹی ٹیوٹ آف گلوبل ہیلتھ اینوویشن کے ڈائریکٹر پر وفیسرآراد رزی کے مطابق ایک قابل تصور دوا کے حصول کے لیے مصنوعی ذہانت مضبوط ترین راستوں میں سے ایک ہے ۔لیکن اس کے لیے بنیادی ضرورت اعلیٰ معیار،بڑے اور صاف اعداد وشمار کی ہے ۔اب اس بات کی ضرورت ہے کہ ان متناسب ادویات کی دریافت میں شامل اعداد وشمارکے ذرائع کو اکھٹاکیا جائے، تا کہ مصنوعی ذہانت کے محققین اپنی نئی مشین لرننگ تیکنیک استعمال کرتے ہوئے جلد سے جلد کووڈ-19کا علاج دریافت کرسکیں ۔امریکا میں موجود نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی کی بار اباسی لیبارٹری ،ہارورڈمیڈیکل اسکول ،اسٹینفورڈ نیٹ ورک سائنس انسٹی ٹیوٹ اور بایو ٹک اسٹارٹ اپ شیفر میڈیسن مل کر ایسی دوا کی تلاش میں ہیں جو کووڈ 19کے علاج کے لیے جلد از جلد دوبارہ تیار کی جاسکے ۔
شیفر کے چیف ایگزیکٹو علیف صالح کے مطابق عام طور پر ان سب کو مل کر کام کرنے کے لیے کاغذی کارروائی میں ہی ایک سال لگ جائے گا ۔لیکن جو افراد کام کومنطقی انجام تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ان کے ساتھ زوم کالز کا سلسلہ شروع کرکے اس سارے عمل کو تیز رفتار بنایا جاسکتا ہے ۔گذشتہ ہفتوں میں جتنا کام ہوا ہے ،عام طور پر اس میں آدھا سال لگ جاتا ہے لیکن سب دن رات محنت کرکے تحقیق پر توجہ دےرہےہیں اور اس کے حیرت انگیز نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔
اس تحقیق سے یہ بات سامنے آئے ہے کہ کو رونا وائرس دماغ کے خلیوں پر حملہ آور ہوسکتا ہے ،جس کی وجہ سے کچھ لوگ ذائقے یا بو کا احساس کھو دیتے ہیں۔شیفر میڈیسن نےمصنوعی ذہانت کو کسی ایسی چیز کے ساتھ جوڑا جسے انہوں نے نیٹ ورک میڈیسن کا نام دیا ہے ۔ماہرین کا کہنا ہےکہ یہ کسی بیماری کو مالیکیولر اجزا کے درمیان پیچیدہ باہمی تعلق کے ذریعے دیکھنے کا ایک طر یقہ ہے ۔کوئی بھی بیماری جس شکل میں ہمارے سامنے آتی ہے وہ شاذونادر ہی ایک جین یا پروٹین کی خرابی کی وجہ سے ہوتی ہے ۔ فطرت اتنی آسان نہیں ہے۔
بلکہ یہ متعدد پروٹینز کے درمیان میل جول میں ایک جھڑپ کا نتیجہ ہے۔نیٹ ورک میڈیسن، مصنوعی ذہانت اور دونوں کے فیوژن کے استعمال سے کنسورشیم نے 81 ممکنہ دوائیوں کی نشاندہی کی ہے جو مدد گار ثابت ہو سکتی ہیں۔پروفیسر البرٹ لسزلو باراباسی کے مطابق مصنوعی ذہانت بہت بہتر کام کرسکتی ہے، ناصرف آرڈر کو بہتر بنانے کے لیے بلکہ ان آزاد معلومات کو دیکھتے ہوئے بھی جو شاید نیٹ ورک میڈیسن کی نظر سے نہ گزرے۔لیکن مصنوعی ذہانت اکیلے یہ کام نہیں کر سکتی، اس کے لیے ان تینوں طریقہ کار کی ضرورت ہے۔
کیوںکہ مختلف ٹولز مختلف نقطہ نظر سے چیزوں کو دیکھتے ہیں لیکن ایک ساتھ مل کر یہ بہت طاقتور بن جاتے ہیں۔کچھ مصنوعی ذہانت کی کمپنیاں پہلے ہی دعویٰ کر رہی ہیں کہ انھوں نے کچھ ایسی دوائیوں کی نشاندہی کی ہے جو مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔ پھیپھڑوں کے خلیوں کو متاثر کرنے والے وائرس سے بچنے کے لیے بینیولینٹ مصنوعی ذہانت نے ممکنہ علاج کے طور پر بیرسٹینب کی نشاندہی کی ہے، جو ہڈیوں کی سوزش (جس میں جوڑوں میں موجود پانی کی تھیلیوں میں سوزش پیدا ہو جاتی ہے) کے علاج کے لیے منظور شدہ دوا ہے۔اور اب امریکا کے الرجی اور متعدی بیماریوں سے نمٹنے والے انسٹی ٹیوٹ میں اس پر کنٹرولڈ ٹرائلز کیے جا رہے ہیں۔
اسی دوران جنوبی کوریا اور امریکاکے سائنس دانوں نے ڈیپ لرننگ کا استعمال کرتے ہوئے اپنی تحقیق کی روشنی میں تجارتی طور پر دستیاب اینٹی وائرل ادویات جیسا کہ اتیزاناویر (ایڈز کے مرض کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی دوا) کو ایک ممکنہ دوا قرار دیا ہے۔دوسری کمپنیاں مصنوعی ذہانت کو دوسرے مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہیں جیسا کہ ریڈیالوجسٹس پر بوجھ کم کرنے کے لیے سکینز کا تجزیہ کرنا اور یہ پیش گوئی کرنے میں مدد کرنا کہ کن مریضوں کو وینٹیلیٹر کی زیادہ ضرورت پڑے گی۔مثال کے طور پر چینی ٹیکنالوجی گرو علی بابا نے ایک الگورتھم کا اعلان کیا جو 96 فی صد درست نتائج کے ساتھ 20 سیکنڈ کے اندر وائرس سے متاثرہ افراد کی تشخیص کر سکتا ہے۔لیکن کچھ ماہرین کا کہنا ہےکہ شاید ہی ایسا ممکن ہے کہ مصنوعی ذہانت کے سسٹمز کو اعلٰی درجے کی بیماریوں سے متعلق اعداد و شمار کی تربیت دی گئی ہو، اور اسی وجہ سے وہ وائرس کی ابتدائی علامات کا پتا لگانے میں اتنے موثر ثابت نہ ہوں۔
پروفیسر ڈارزی کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر پالیسی سازوں کو چاہیے کہ وہ بڑی دوا ساز کمپنیوں، ماہرین تعلیم اور تحقیقی اداروں کو اپنے ڈیٹا کے ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے ایک ساتھ کام کرنا پڑے گا ۔کووڈ 19کے خلاف جنگ میں مصنوعی ذہانت کی مدد کے لیے ادویات کی دریافت کے اعداد وشمار اور اہم باتوں کا ایک دوسرے کو بتانے کا اس سے اچھا موقع کوئی اور نہیں ہوسکتا ۔