چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل خالد شمیم وائیں کی زیرصدارت اجلاس میں تینوں افواج کے سربراہان سمیت اعلیٰ عسکری قیادت نے شرکت کی جس میں آئندہ عام انتخابات میں تعاون اور دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا گیا، پاک فوج کے شعبہ اطلاعات کے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق اجلاس میں قومی سلامتی اور سکیورٹی صورتحال کے جائزے کے علاوہ الیکشن میں مسلح افواج کی جانب سے معاونت کی حکمت عملی بھی زیر غور آئی اور مسلح افواج نے مادر وطن کے دفاع کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنے اور جامع حکمت عملی کے تحت دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کا عزم بھی ظاہر کیا۔
ملک کی جغرافیائی سرحدوں کا دفاع اور کسی بھی بیرونی مداخلت کو روکنے کے علاوہ شہریوں کو مداخلت کاروں سے جان و مان کا تحفظ فراہم کرنا مسلح افواج کی بنیادی اور اولین ذمہ داری سمجھی جاتی ہے اور اس سے بہ احسن وجوہ عہدہ برآ ہونے کے بعد مسلح افواج اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو سکتی ہیں، یہ بات بہرطور باعث اطمینان و مسرت ہے کہ ملک کی موجودہ سیاسی قیادت اور عسکری قیادت کے درمیان ملک و قوم کو درپیش تمام چیلنجز، اندرونی اور بیرونی مسائل اندرونی محاذ پر دہشت گردوں کی سرگرمیوں کو روکنے اور ہر قسم کے بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لئے مکمل فکری ونظریاتی ہم آہنگی پائی گئی اور فریقین کے درمیان ایسے تمام مسائل پر وسیع تر مشاورت کا سلسلہ بھی جاری رہا جو ہمیشہ نتیجہ خیز ثابت ہوا۔ خاص طور پر بعض قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کے لئے بیرونی دباؤ کا سامنا کرنا اور ملک و قوم کے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے حالات و واقعات کے مطابق آپریشن کا ازخود فیصلہ کرنے کے موقف پر دونوں فریق پوری طرح نہ صرف متحد رہے بلکہ انہوں نے ہر بیرونی دباؤ کو سختی سے مسترد کر دیا اور عسکری قیادت نے اعلان کیا کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کا فیصلہ کسی بیرونی دباؤ کے تحت نہیں بلکہ ملک و قوم کے حالات اور مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے خود کرے گی کوئی بیرونی دباؤ قبول نہیں کیا جائے گا، اس جواب کی صورت میں یک طاقتی عالمی نظام کے تحت پاکستان کو ملنے والی دھمکیوں خاص طور پر فوجی اور اقتصادی امداد روک لینے کو بھی مسترد کر دیا گیا اور ہر قدم ملک و قوم کے مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا جس کے نتیجے میں آخر کار بعض بیرونی طاقتوں کو اپنا رویہ ترک کرتے ہوئے دھمکیوں کا سلسلہ بھی روکنا پڑا۔
اب ملک میں عام انتخابات کی آمد آمد ہے اور ملک گیر سطح پر ہونے والی دہشت گردی اور حکومت اور اپوزیشن حلقوں کے درمیان بعض اختلافات کی وجہ سے یہ خدشہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ پاکستان دشمن عناصر اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شہریوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کرکے الیکشن پر ناخوشگوار اثرات ڈالنے کی کوشش کریں گے اور ممکن ہے کہ پولنگ بوتھ تک پہنچنے میں ووٹروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے اور وہاں کی فضا بھی ان کے لئے خطرات پیدا کرنے کا موجب ثابت ہو۔ اس صورتحال کے پیش نظر انتخابی عمل کو مکمل محفوظ بنانے، ووٹروں کو مکمل تحفظ فراہم کرنے، پولنگ بوتھ کی فضا کو پرامن رکھنے کے لئے مسلح افواج کی قیادت نے متعدد موقعوں پر مکمل تعاون کا یقین دلایا ہے اور چیف الیکشن کمشنر اور دوسرے عہدیداروں سے ملاقات کے دوران انہیں یقین دلایا ہے کہ وہ انتخابی قوانین اور ضابطوں کی پابندی کو یقینی بنانے کی طرف بھرپور توجہ دیں اس کے لئے عسکری قیادت کا اسے مکمل تعاون حاصل رہے گا لیکن یہ ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن بھی انتخابی قوانین اور ضابطوں پر عملدرآمد کو یقینی بنانے میں کسی کوتاہی یا غفلت کا مرتکب نہ ہو۔ مسلح افواج کے جوان ووٹروں کو گھر سے لے کر پولنگ بوتھ تک آنے میں مکمل تحفظ فراہم کریں گے اس لئے کہ بروقت اور شفاف انتخابات ہی ملک میں جمہوریت کے استحکام کی جانب مثبت پیش رفت کا ذریعہ ثابت ہو سکتے ہیں جس سے سیاستدانوں، قومی سیاست اور الیکشن کمیشن پر عوام کے اعتماد میں اضافہ ہو گا اور صاف و شفاف انتخابات کا عمل بھی پایہ تکمیل کو پہنچے گا۔ ماضی میں مہم جو اور مفاد پرست عناصر جمہوریت کی بساط لپیٹنے اور ملک میں ایک غیر نمائندہ اور غیر جمہوری حکومت کے قیام کے لئے انتخابی عمل کو مشکوک بنانے اور اس میں بالواسطہ اور بلاواسطہ مداخلت کرنے کے مرتکب ہوتے رہے جس کے نتیجے میں آئینی مدت اقتدار پوری کرنے سے پہلے ہی جمہوری حکومتوں کی بساط لپیٹی جاتی رہی۔ اس طرح ملک طویل عرصہ تک مارشل لا کی لپیٹ میں رہا اور جمہوری اقدار دم توڑتی گئیں اور مفاد پرست اور مہم جو سیاستدان مارشل لا کی تائید و حمایت کرکے غیر نمائندہ اور غیر جمہوری حکومتوں میں شامل ہو کر مارشل لا حکام کے ہاتھ مضبوط کرتے رہے یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ غیر ملکی مبصرین کو بار بار یہ کہنے کا موقع ملتا رہا کہ پاکستانی قوم جمہوریت کی اہل ہی نہیں اور اس صورتحال نے قومی سیاست، سیاستدانوں اور جمہوریت پر عوام کے اعتماد کو متزلزل کرکے رکھ دیا اور ہر آنے والے انتخاب میں ٹرن اوور میں زبردست کمی دیکھنے میں آئی۔
اس پس منظر میں ملک کو گزشتہ 5 سال کے دوران جس صورتحال کا سامنا رہا خاص طور پر دہشت گردوں نے جس طرح پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ٹارگٹ کلنگ کے واقعات اور بوری بند لاشوں کا ملنا ایک معمول بن کر رہ گیا، عوام کے روز مرہ کے مسائل میں زبردست اضافہ ہوا توانائی کے بحران نے لاکھوں افراد کو بیروزگار کر دیا، گرانی کے طوفان نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا اور غربت و افلاس کے مارے افراد بیوی بچوں سمیت خودکشی کے مرتکب ہوتے رہے اس صورتحال نے سرمایہ کاری کو زبردست نقصان پہنچایا ملک سے سرمائے کے فرار سے قومی معیشت بری طرح متاثر ہوئی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اکثر معاملات پر مفاہمت کی بجائے محاذ آرائی اور تصادم نے جنم لیا۔ انتہا یہ ہے کہ ابھی تک حکومت اور اپوزیشن نگران وزیراعظم کے مسئلہ پر متفق نہیں ہو پائی اور دہشت گردی کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، اس کے باوجود عسکری قیادت کی طرف سے کوئی ناخوشگوار اور توقعات سے متصادم ردعمل سامنے نہیں آیا بلکہ جمہوریت کے استحکام اور فروغ کے لئے وہ پورے انتخابی عمل کو پرامن بنانے کے لئے مکمل تعاون کی یقین دہانی کراتی چلی آ رہی ہے جو ہر لحاظ سے ایک نیک شگون اور امید افزاء امر ہے اس سے عوامی حلقوں میں بھی عسکری قیادت پر اعتماد اور اس کے احترام میں اضافہ ہوا ہے اور عوام کھل کر یہ کہہ رہے ہیں کہ عسکری قیادت کا طرز عمل عوامی توقعات کے عین مطابق ہے اس لئے اس کے احترام میں اضافہ ہوا ہے لہٰذا حکومت اپوزیشن اور تمام عوامی حلقوں کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عسکری قیادت کے ساتھ بھرپور تعاون کا مظاہرہ کرکے انتخابی عمل کو پرامن بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں صرف اسی طرح بروقت اور شفاف انتخابات کو یقینی بنا کر جمہوریت کو مستحکم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔