اسلام آباد (نیوز ایجنسیاں) قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ میں بھی وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کی گھن گرج واضح طور پر سنائی دی اور وہ سندھ حکومت پر کھل کر برسے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی ماحول آلودہ نہیں کرنا چاہتے، جیسے پنجاب میں لوہا منوایا اب سندھ میں ہم اپنا لوہا منوائیں گے، پیپلز پارٹی تیاری کرلے ہم سندھ بھی آرہے ہیں، صوبے کے ٹھیکیدار نا بنیں، آب ہوتے کون ہیں بجلی بل معاف کرانے والے؟
پیپلزپارٹی کی رہنما شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ مشکل گھڑی میں وزیراعظم لاپتا ہیں ، ملک کون چلا رہا ہے،وزیر اعظم کورونا سے آئینی فورم سے ڈرتے ہیں، راجہ ظفر الحق نے کہا کہ وزیراعظم کا اشرافیہ والا بیان قوم کو تقسیم کرنیکی کوشش ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے مصدق ملک نے کہا کہ حکومت اموات نہ گنوائے حل پیش کرے، جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ ڈرامہ ارطغرل دکھانے سے مدینے کی ریاست نہیں بنے گی۔ سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر راجہ ظفر الحق کا کہنا تھاکہ کورونا لاک ڈائون معاملے پر قوم کوتقسیم کیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق سینیٹ اجلاس میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کے قائل ہیں اور وہ ہماری ہے، وزیر خارجہ نے سندھ حکومت کے آرڈیننس پر شدید اعتراض کرتےہوئے کہا کہ سندھ حکومت کیا آرڈیننس لا رہی ہے، آپ بجلی کے بل معاف کیسے کرسکتے ہیں؟
آپ ہوتے کون ہیں بل معاف کرنے والے، سندھ کے ساتھ ہرگز امتیازی سلوک نہیں روا رکھا جا رہا، اس کو آبادی کے تناسب سے زیادہ سامان دیا، سندھ کے ساتھ کوئی زیادتی ہوئی ہے نہ کریں گے، جیسے پنجاب میں لوہا منوایا اب سندھ میں ہم اپنا لوہا منوائیں گے، تیاری کرلو۔انہوں نے کہا کہ لگتا ہے 18 ویں ترمیم دے کر کوئی گناہ کر دیا، روز اخلاقیات کا جنازہ نکالا جا رہا ہے۔ہم سیاسی ماحول کو آلودہ نہیں کرنا چاہتے۔
پورے ملک میں لاک ڈاؤن تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ صوبے کے ٹھیکیدار نا بنیں، وفاق کی علامت والی جماعت سے سندھ کی بو آرہی ہے،شیری رحمان نےکنفیوژن کی بات کی ہے جو درست نہیں، ملک میں کوئی کنفیوژن نہیں ہے، پالیسی واضح ہے اور قومی حکمت عملی مرتب کی جاچکی ہے۔ شاہ محمود نے مزید کہا کہ وزیراعظم نے ہرگز نہیں کہا کہ لاک ڈاؤن اشرافیہ نے کرایا، وزیراعظم کی بات کی میں وضاحت کردیتا ہوں۔
وزیراعظم نے کہا ملک میں ایک مزدور طبقہ ہے، ایک اشرافیہ ہے اور اس کے پاس لاک ڈاؤن میں زندہ رہنے کے وسائل ہیں لیکن غریب میں صلاحیت نہیں، ہم نے بھوک اور غربت سے جان بچانی ہے، ماہرین نے کہا کہ اگرلاک ڈاؤن رکھا جاتا تو لوگ غربت کی لکیرسے نیچے چلے جائیں گے۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ملک میں کورونا سے متعلق یونیفارم پالیسی ہے، کورونا کی قومی پالیسی میں سندھ کی ان پُٹ موجود ہے، وزیر خارجہ کا کہنا تھاکہ ہم نے قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا اگر اجلاس بلانے میں ہچکچاہٹ ہوتی تو کیوں بلاتے،انہوں نے سندھ حکومت اور آرڈیننس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ کہ سندھ ہمارا ہے۔
اس کے دارالحکومت میں پی ٹی آئی اور ایم کیوایم کی اکثریت ہے، آپ صوبے کے ٹھیکیدار نہ بنیں۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اندرون سندھ میں کونسا لاک ڈاؤن ہے؟ ان کا کہنا تھاکہ سندھ میں تاجروں سے ان کے مذاکرات ناکام ہوئے، وہاں کے تاجروں نے کہا کہ ہم لاک ڈاؤن کھول رہے ہیں پھر انہیں مجبوراً لاک ڈاون کھولنا پڑا، ہمارے ملک میں کوئی آمریت نہیں ہے، یہاں لوگوں کو قائل کرنا پڑتا ہے اور ہم ڈنڈے کے زور پر کچھ نہیں کرسکتے۔
سینیٹ میں قائد حزب اختلاف راجہ ظفر الحق اور پیپلز پارٹی کی پارلیمانی لیڈر شیری رحمان نے کہا ہے کہ حکومت کوکوروناوباءسے پیدا ہونے والی سنگین صورتحال کا اپوزیشن کے ساتھ مل کر حل تلاش کرنا چاہئے کوروناسے نمٹنے کے لئے ہم آہنگی اور یکساں پالیسی کی ضرورت ہے ، مشکل کی گھڑی میں وزیراعظم لاپتہ ہیں۔
کہاں ہیں عمران خان، ملک کون چلا رہا ہے، کورونا کیخلاف تمام حکومتی اقدامات مبہم ہیں، لاک ڈاؤن سے متعلق کچھ واضح نہیں۔یہ اجلاس اپوزیشن کی ریکوزیشن پر بلایا گیا ہے، حکومت کو اپوزیشن سے مل کر اس سنگین صورتحال کا حل تلاش کرنا چاہئےتھا۔
انہوں نے کہا کہ کورونا،کی صورتحال کے تناظر میں لاک ڈاؤن کے معاملے پر قوم کو تقسیم کیا گیا،سندھ حکومت کیخلاف کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے،کورونا وباءسے متعلق قومی پالیسی وضع کرنے کی ضرورت ہے، صوبہ سندھ وفاق سے بھرپور اور مکمل تعاون کر رہا ہے۔