• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سہیل وڑائچ صاحب نے اپنے کالم میں ایک چھوٹی سی تاریخی حقیقت کیا بیان کردی کہ طوفان کھڑا ہوگیا۔ جہاں حکومتی ترجمانوں اور بعض تجزیہ کاروں نے سہیل وڑائچ کے آرٹیکل کی من مانی تشریحات کرکے اپنا بغض نکالا، وہاں بعض مسلم لیگیوں نے بھی وڑائچ صاحب کو قربانی کا بکرا بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

حالانکہ میرے ساتھ انٹرویو میں شہباز شریف صاحب نے سہیل وڑائچ کے کالم کی تردید کی اور نہ ان کی باتوں کو خلافِ واقعہ قرار دیا لیکن پھر بھی بعض مسلم لیگی صفائیاں دیتے ہوئے یہ تاثر دے رہے تھے کہ جیسے وڑائچ صاحب نے صحافتی اخلاقیات کی خلاف ورزی کی ہے حالانکہ سہیل وڑائچ کی صحافتی اخلاقیات کی پاسداری پر ہمیں رشک آتا ہے۔

میں اس بات پر بھی حیران ہوں کہ آخر وڑائچ صاحب نے کونسی نئی بات لکھ دی تھی کہ جس کی وجہ سے لوگوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ یہ بات میں بھی جانتا ہوں اور درجنوں دیگر صحافی بھی جانتے ہیں کہ شہباز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کا رابطہ ایک دن کے لئے بھی منقطع نہیں ہوا۔ جب نواز شریف کو سپریم کورٹ کے ذریعے فارغ کردیا گیا تو اس وقت بھی اسٹیبلشمنٹ کی یہ خواہش تھی کہ تعلقات کو خوشگوار رکھنے کے لئے شہباز شریف کو آگے لایا جائے۔

تب بھی شہباز شریف بطور وزیراعظم قابلِ قبول تھے لیکن شرط یہ تھی کہ وہ نواز شریف اور مریم نواز کو باہر رہنے پر آمادہ کر لیں۔ اسلام آباد کا ہر باخبر صحافی جانتا ہے کہ جن مقتدر شخصیات کی عمران خان اور جہانگیر ترین سے ملاقاتیں ہوتی تھیں، انہی شخصیات کے ساتھ صرف شہباز شریف کی نہیں بلکہ خواجہ آصف وغیرہ کی بھی ملاقاتیں ہوتی رہیں۔

بات ہمیشہ نواز شریف اور مریم نواز شریف کی وجہ سے بگڑ جاتی تھی۔ اگر اس وقت شہباز شریف اپنے بھائی کو مفاہمت اور مٹی پائو والے بیانیے پر آمادہ کر لیتے تو عمران خان کبھی وزیراعظم نہیں بن سکتے تھے۔ مسئلہ یہ ہوا کہ میاں شہباز شریف، بڑے بھائی کو چھوڑ سکے، مفاہمت کی پالیسی پر اپنا ہمنوا بنا سکے اور نہ خود اُن کا انقلابی بیانیہ اپنا سکے۔ گڈ کاپ اور بیڈ کاپ کی اس پالیسی کی وجہ سے ہی مسلم لیگ (ن) کو ضرورت سے زیادہ رگڑا ملا اور پی ٹی آئی کو ضرورت سے زیادہ نواز اگیا۔

ہاں البتہ اب کی بار شہباز شریف جو کچھ کررہے ہیں، اس میں میاں نواز شریف اور مریم صاحبہ پوری طرح ان کے ہمنوا ہیں۔ اب انہوں نے بھی بڑی حد تک شہباز شریف کے بیانیے کو قبول کر لیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مریم نواز نے کئی ماہ سے چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے اور اپنے ٹویٹر اکائونٹ کو بھی تالہ لگا دیا ہے۔

چونکہ عمران خان کو علم ہے کہ اب کی بار سارے شریف بالاتفاق شریف بنے ہوئے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ درمیان میں کورونا نہ آتا تو شہباز شریف کی اس پالیسی نے ابھی تک رنگ دکھا دینا تھا اور اب بھی انہیں خدشہ ہے کہ کورونا کے ختم ہوتے ہی شہباز شریف کی یہ شریفانہ پالیسی ان کے لئے مشکلات پیدا کر سکتی ہے، اس لئے وہ انہیں دوبارہ پھنسا کر فضا کو مکدر کرنا چاہتے ہیں۔

سہیل وڑائچ کے مضمون سے جس بحث نے جنم لیا، اس دوران اپنے آپ کو مریم نواز شریف کا منظور نظر قرار دینے والے ایم این اے جاوید لطیف نے سہیل وڑائچ کی طرح چوہدری نثار علی خان کو قربانی کا بکرا بنانے کی کوشش کی۔ اتنی ہمت تو ظاہر ہے کوئی کر نہیں سکتا کہ 2014دھرنے کے پیچھے اصل قوتوں کا نام بتا دے اس لئے جاوید لطیف صاحب نے سارا ملبہ چوہدری نثار علی خان پر ڈالنے کی کوشش کی۔

انہوں نے یہ غلط تاثر دیا کہ چوہدری نثار درپردہ عمران خان سے ملے ہوئے تھے حالانکہ میں اس وقت چوہدری صاحب سمیت کئی اہم کرداروں کے ساتھ نہ صرف رابطے میں تھا بلکہ روزانہ پتھرائو اور گالیوں کی زد میں آنے والے دھرنا متاثرین کی صفِ اول میں بھی شامل تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ چوہدری صاحب، خان صاحب اور قادری صاحب کے دھرنے کو آبپارہ سے آگے جانے کی اجازت دینے کے حق میں نہیں تھے۔

میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ انہوں نے عمران خان کو خبردار کیا تھا کہ اگر انہوں نے آگے بڑھنے کی کوشش کی تو وہ ان سے آہنی ہاتھوں کے ساتھ نمٹیں گے۔ چونکہ وزیراعظم جانتے تھے کہ چوہدری نثار ماننے والے نہیں اور وہ پٹائی کروائیں گے اس لئے ان کو بائی پاس کرکے راتوں رات انہوں نے اس وقت کے سیکرٹری داخلہ کے ذریعے پولیس کو یہ آرڈر جاری کروا دیا کہ وہ کارروائی روک کر دھرنا دینے والوں کو ڈی چوک تک آنے دیں۔

محترم میجر عامر نے مجیب الرحمٰن شامی کے شو میں جو بات کہی، اس کا میں بھی گواہ ہوں کہ بائی پاس کرکے وزیراعظم کی طرف سے براہِ راست دھرنے والوں کو ڈی چوک تک آنے پر چوہدری صاحب اتنے برہم تھے کہ استعفیٰ دے رہے تھے اور میجر عامر جیسے دوستوں نے ان کو منع کیا۔ چوہدری نثار علی خان نے بہت غلطیاں کی ہیں۔

وہ ضدی اور انا پرست ہیں اور اس وجہ سے انہوں نے اپنے آپ کو سیاسی طور پر خراب بھی کیا لیکن نواز شریف کے خلاف کسی سازش کا وہ کبھی حصہ نہیں بنے۔ اس بات کا بھی مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ الیکشن سے قبل جہاں مقتدر حلقوں کا دبائو تھا، وہاں عمران خان نے کئی گھنٹے تک ان کی منتیں کیں کہ وہ ان کی پارٹی میں آجائیں اور ان کے بعد پارٹی اور حکومت دونوں میں جو بھی پوزیشن لینا چاہیں لے لیں۔

وہ اس وقت یہ پیشکش قبول کرتے تو آج عمران خان کے بعد دوسری طاقتور شخصیت ہوتے لیکن میجر عامر کے اس دعوے کا بھی مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ چوہدری نثار نے سب پیشکشیں اس بنیاد پر ٹھکرا دیں کہ وہ اس اسٹیج پر نہیں بیٹھ سکتے جہاں سے نواز شریف اور ان کے خاندان کو گالیاں پڑ رہی ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابات میں ان کو بھی وہی سزا دی گئی جو دیگر مخالف پارٹیوں کے امیدواروں کو دی گئی۔

تازہ ترین