• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قصہ بڑا پرانا ہے ایک گاؤں کے لوگ اپنے قبرستان کے گورکن سے سخت نالاں تھے اور اس کے مرنے کی بددعائیں مانگا کرتے تھے کیونکہ وہ گورکن مردے کو دفنانے کے بعد اس کا کفن چوری کر لیا کرتا تھا۔ لوگوں کی بددعائیں قبول ہوئیں اور وہ گورکن مر گیا۔ لوگوں نے سکھ کا سانس لیا اب یہ کام اس کی اولاد کے پاس آ گیا۔ کچھ روز گزرے تو ساتھ والے گاؤں کا نمبردار اس گاؤں سے گزرا اس نے دیکھا کہ گاؤں کے لوگ مرنے والے گورکن کی قبر پر کھڑے ہیں اور اس کو دعائیں دے رہے ہیں تو بڑا اچھا تھا تیری اولاد بہت بری اور بدبخت ہے۔ ساتھ والے گاؤں کے نمبردار نے پوچھا کہ بھائیو کیا ہوا؟ تم کفن چور کو دعائیں دے رے ہو ۔ تو گاؤں کے ایک بڑے نے اس نمبردار سے کہا کہ اس کا بیٹا جب سے گورکن بنا ہے وہ نہ صرف کفن چوری کرتا ہے بلکہ مرنے والے کے گلے میں جوتوں کے ہار بھی ڈال دیتا ہے اور ہمارے مردوں کی بڑی بے حرمتی کر رہا ہے۔ اس واقعے پر میں مزید کوئی تبصرہ نہیں کرونگا سمجھ داروں کیلئے اشارہ کافی ہے۔ جنرل مشرف نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں بڑے واضح انداز میں ارشاد فرمایا ہے کہ پاکستان کی پوری تاریخ میں صرف اور صرف دو سنہری دور آئے ہیں۔ ایک دور ایوب خاں کا اور دوسرا میرا دور۔ کیا کہنے ، اپنے منہ میاں مٹھو۔
جنرل مشرف ذرا یہ تو ارشاد فرمائیں کہ ان کے دور میں کون سا ایسے کارہائے نمایاں ہوئے جن کا ذکر وہ فخریہ انداز میں کرتے ہیں حالانکہ ایوب خاں کے دور اور مشرف کے دور نے پاکستان کی سیاست پر انتہائی گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ ہاں البتہ ایوب خاں کے دور میں ڈیم ضرور بنے، زراعت نے ترقی کی، صنعتی انقلاب آیا، زرعی پیداوار بڑھی۔ مشرف صاحب کے دور میں پاکستانی قوم بم دھماکوں،خودکش حملوں، آئے دن کے قتل و غارت سے روشناس ہوئی۔ فوج اور پولیس جس پر کوئی حملہ کرنیکا سوچ نہیں سکتا فوج کے دفاتر، کیمپوں اور پولیس کے ٹریننگ سنٹروں پر حملے ہوئے۔ پاکستان امریکہ کی غلامی میں پوری طرح چلا گیا۔ جتنے لوگ اب تک بم دھماکوں اور خود کش حملوں میں مارے جا رہے ہیں یہ سب تحفہ جنرل مشرف کا ہی تو ہے۔
ہمارے ملک کی سیاست کی جو حالت اس وقت ہے وہ کسی سے چھپی ہوئی نہیں۔ لوگ نگران سیٹ اپ میں بھی وزیر، وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم بننے کے لئے پریشان ہو جاتے ہیں اور ہر طرح کا حربہ استعمال کرتے ہیں۔
ہر سیاستدان نے ماضی میں اور اب بھی ہر کوئی یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ وہ عام آدمی کے حالات بہتر کر دے گا۔ پی پی کی بشریٰ اعتزاز کہتی ہیں کہ وہ روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لے کر پھر آئیں گی۔ اب بے چارے عوام کے پاس نہ روٹی رہی نہ مکان اور کپڑے بھی پھٹے پرانے۔ روٹی مزارات سے کھاتے ہیں اور کچھ لوگ اس لئے روٹی کھلاتے ہیں کہ شاید روزِ قیامت بخشے جائیں۔ آئے دن سیاستدان ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں جا رہے ہیں کیا یہ ہمارے ”رہنما“ باغبانپورہ، دھرم پورہ، شادباغ ، سندھ اور بلوچستان کی انتہائی غریب بستیوں میں رہنے والوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لئے پارٹیاں تبدیل کر رہے ہیں۔ #
نہ جانے لطف کیا ملتا ہے ان کو روز بکنے میں
طوائف کی طرح لوگو! قیادت روز بکتی ہے
اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارہ برائے پروگرام نے انسانی وسائل کی ترقی کے بارے میں ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کی 49فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے ہم آج کانگو سے بھی کم رقم تعلیم اور صحت پر خرچ کر رہے ہیں۔ بھارت ، سری لنکا اور بنگلہ دیش بھی ہم سے آگے ہیں۔ عام آدمی کی زندگی بہتر بنانے والے 186ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر 146 واں ہے۔
آج الیکشن کا زمانہ ہے ہر کوئی ایسے دعوے کر رہا ہے جنہیں سن کر لگتا ہے کہ بس اب اگر فلاں پارٹی آ گئی تو یہ ملک جنت بن جائے گا۔ ماضی کا ایک بڑا مشہور گانا تھا
جو بچا تھا وہ لٹانے کے لئے آئے ہیں
آخری گیت سنانے کے لئے آئے ہیں
تھوڑی سی ترمیم کے بعد
جو بچا تھا وہ لوٹنے کے لئے آئے ہیں
عوام کو پھر بے وقوف بنانے کے لئے آئے ہیں
مولانا فضل الرحمن ملک کو اندرونی اور بیرونی قوتوں کے خطرات سے بچانے کے لئے نعرہ لگا رہے ہیں۔ عمران خاں کو خواب میں الیکشن میں اپنی پوزیشن کلین سویپ نظر آتی ہے۔ ماضی کے حکمران اپنے اپنے دور کو سنہری اور یادگار دور قرار دے رہے ہیں۔ اس کا فیصلہ تو تاریخ لکھنے والا کرے گا ہم تو یہ جانتے ہیں کہ 65برسوں میں ملک میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ حال ہی میں سید سرفراز اے شاہ صاحب کے ہاں نشست میں حبیب رفیق نے کہا کہ کسی بھی قوم اور ملک کو بننے کے لئے 200برس درکار ہوتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے حاکم اور سیاسی پارٹیاں اسی ڈگر پر چلتی رہیں تو دو سو برس بعد یہاں کیا رہ جائے گا۔ کہا گیا کہ ایم این اے الیکشن میں 15لاکھ روپے اور ایم پی اے صرف 10لاکھ سے زائد خرچ نہیں کر سکتا۔ اس سے بڑا سفید جھوٹ اور کیا ہو گا؟ کیا کوئی امیدوار اس الیکشن میں صرف 15لاکھ اور 10لاکھ خرچ کرے گا ؟ ارے بھائی 10کروڑ اور 15کروڑ کی بات کرو۔ 15اور دس لاکھ تو اب بلدیاتی الیکشن کے امیدوار بھی خرچ نہیں کرتے وہ بھی لاکھوں خرچ کرتے ہیں۔ کروڑوں روپے دے کر تو پارٹی ٹکٹ لیا جاتا ہے۔ راج چلا گیا اور کئی وفاقی وزراء جاتے جاتے حکومت کی 12سرکاری گاڑیاں ساتھ لے گئے۔ کیا اس پر نگران حکومت نے کوئی ایکشن لیا؟ ہر کوئی دعوے اور نصیحت کر رہا ہے۔ ہر کوئی ملک کو جنت بنانے کی بات کر رہا ہے اور عملاً کیا ہو رہا ہے۔ اس الیکشن میں عوام کا پتہ نہیں کیا فائدہ ہوتا ہے البتہ آج کل پرنٹنگ پریس والوں، پوسٹر بنانے والوں اور فلیکس بنانے والوں کی ضروری چاندی ہو چکی ہے۔ آخر میں صرف اتنا کہوں گا #
نصیحت روز بکتی ہے عقیدت روز بکتی ہے
تمہارے شہر میں لوگو محبت روز بکتی ہے
مولانا فضل الرحمن کا بیان کس قدر دلچسپ ہے کہ عوام آزادی کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔ عوام کو اس حال تک پہنچایا کس نے؟ آج پاکستانی قوم معاشی طور پر تباہ حال لفظ کم ہے بلکہ فقیروں سے بھی بدتر زندگی بسر کر رہی ہے۔ جب لوگ ایوانوں میں ہوتے ہیں تو عوام کو بھول جاتے ہیں اور جب سڑکوں پر ہوتے ہیں تو عوام ان کے محبوب ہوتے ہیں۔ یہ کیسی ادا ہے؟
تازہ ترین