ہما صدیقی
آج کے جدید اور ترقی یافتہ دور میں اگر کسی بھی ملک وقوم کو آگے بڑھنا ہے تو یہ بات تو طے ہے کہ ان کی ترقی کاسفر حصول علم اور فروغ علم کے بغیر جاری نہیں رہ سکتا ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہر اس ملک میں جہاں تعلیم کی شرح تسلی بخش نہیں وہاں پر ترقی کی رفتار خود بخود سست پڑنے لگتی ہے ۔ اس لیے اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ آج کادور تعلیم اور تحقیق کادور ہے ۔ سائنس اور ٹیکنا لوجی کادور ہے۔
علم وہنر میں مہارت اور مقابلے کادور ہے ۔ غور کیاجائے تو تعلیم کی اہمیت اور ضرروت کوزمانہ قدیم سے ہی تسلیم کیا جاتا رہا ہے ۔ اگر ہم پانچ سوسال قبل مسیح سے آج تک کے ماہرین تعلیم اور حکماء کے خیالات اورنظریات کو یک جا کرکے دیکھیں تو ہمیں اس بات کا بہ خوبی اندازہ ہوجائے گا کہ تعلیم کا مقصد درحقیقت انسانی ذہن کی بہتر نشوونما، اخلاقیات اور انسانی قدروں کو سنوارنا ، معاشرتی رویوں کو صحیح رخ فراہم کرنا اور انسانی ذہن کی علم کے ذریعے آبیاری کرکے فرد اور معاشرے کو صحت مند بنانا ہے، اس کے ساتھ ساتھ نئی نسل کوایسی تربیت دینی ہے جس کی بدولت وہ نہ صرف اپنے لیے بلکہ ملک کے لیے بھی ایک اچھا اور مفید شہری ثابت ہوسکیں ۔
دنیا کے مشہور مفکر اور دانشور تعلیم کے بارے میں مختلف رائے کا اظہار کرتے رہے ہیں ۔ جسے کہ کینفوش کے مطابق ’’ تعلیم کا مقصد جس حد تک ممکن ہوسکے جسم اور روح کی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا ہے ، اسپنسر کے نزدیک ’’ تعلیم کا مقصد فرد کو حیات کامل کے لیے تیار کرنا ہے ‘‘ ۔ سقراط کے مطابق ’’ تعلیم کامقصد غلطیوں سے اجتناب اور حق کی دریافت ہے ‘‘ جبکہ بقول ارسطو ’’ تعلیم حاصل کرنے کا مقصد صحت مند جسم میں ، صحت مند دماغ کی پرورش کرنا ہے ‘‘ ۔ اس لیے کہاجاتا ہے کہ ایک عالم اور ایک جاہل کادماغ کبھی برابر نہیں ہوسکتا ۔
علم کے معنی ہیں جاننا ، یعنی شعور اور آگہی حاصل کرنا اور جو قومیں شعور اور آگہی حاصل کرلیتی ہیں وہیں قومیں حقیقتاً ترقی اور کامیابی کی منازل تیزی سے طے کرنے کے قابل بن جاتی ہیں ۔ اپنے مذہب اور اپنی تہذیب کو تعلیم کے ذریعے پروان چڑھاتی ہیں ۔ برطانیہ میں صنعتی انقلاب کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ وہاں کے اہل دانش اور حکمران طبقے نے تعلیم پر سب سے زیادہ توجہ دی اور یہی ان کی ترقی کاراز ہے ۔ امریکہ ، چائنا ، جاپان اور فرانس جیسے ممالک بھی تعلیم کے فروغ کی بدولت ہی دنیا میں ترقی یافتہ اقوام کادرجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ۔
کیونکہ ان ممالک نے جدید علوم میں زیادہ زور ملازمت کے لیے ہنر کی تربیت ، ہر خاص وعام میں ذہنی صلاحیتوں کی نشوونما ، ایک متوازی معاشرے کی ترویج میں اہم کردار ادا کرنے اور علم وہنر کی بنیادوں پر مبنی، معیشت کی ضروریات کومہارت کے ساتھ پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اپنی نوجوان نسل کوسوفی صد تعلیم یافتہ کرنے کے لیے اقدامات کیے اور یوتھ کے لیے ایسی مفید پالیسز بنائیں جس کی وجہ سے ان کے ہاں تعلیم کی شرح100فی صد تک پہنچ گئی ۔ مندرجہ بالا مثالوں سے یہ بات پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ دراصل تعلیم کوفروغ دینے سے ہی قوموں کی ترقی کا آغاز ہوتا ہے ۔
اکسویں صدی کی دوسری دھائی میں قدم رکھنے کے باوجود بھی ہمارے ملک کے پالسیی میکرز نے تعلیم کی اہمیت کونہیں سمجھا اور اس شعبے کی حالت کو سدھارا نہیں گیا تو پاکستان کی ترقی کا خواب ، خواب ہی رہ جائے گا ۔
آج بھی اگر ہم تعلیم کے حوالے سے موجودہ صورتحال کاتجزیہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اس ملک کے ڈھائی کروڑ سے زائد بچے اسکول نہیں جاتے ۔ 20فی صد اسکولوں کے لیے عمارت موجود نہیں جبکہ اس ضمن میں تصویر کاایک بھیانک رخ یہ بھی ہے کہ پاکستان کے 25فی صد اساتذہ ، تنخواہ وصول کرنے کے باوجود طلباء کوتعلیم دینے کے لیے اسکولوں کارخ نہیں کرتے ۔
دوسری طرف یہ امر بھی توجہ طلب ہے کہ تعلیمی اداروں میں بڑھتا ہوا سیاسی جماعتوں کا اثرروسوخ ، تعلیمی اداروں کے ماحول کوتباہ کرنے اور میرٹ کاقتل کرنے کاسبب بنتا رہا ہے ۔ پاکستان کے موجودہ ناگفتہ با حالات دیکھتے ہوئے اور نوجوان نسل خصوصاً طلبہ کے مفادات اور مستقبل کے معماروں کی اہمیت کومدنظر رکھتے ہوئے اس سچائی کوتسلیم کرنا ہوگا کہ طلبہ کی ذہنی ، اخلاقی اور مذہبی تربیت ، طلبہ تنظیموں جن کی جڑیں سیاسی جماعتوں سے جاملتی ہیں ان کی ذمہ داری ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ تعلیمی اداروں ، اساتذہ کرام ، والدین اور معاشرے کی مشترکہ ذمہ داری ہے ۔
دوسری جانب پاکستان کی سیاسی ، معاشی اور معاشرتی صورتحال کو ذہن میں رکھتے ہوئے طلبہ کے کندھوں پر بھی یہ بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ تمام تعلیمی اداروں ، جامعات ، اسکولوں اور کالجوں کوصرف حصول علم اور نصابی وغیر نصابی سرگرمیوں کے لیے استعمال کریں نہ کہ سیاسی سرگرمیوں اور شرپسند کاروائیوں میں حصہ لے کر اپنا مستقبل داؤ پر لگائیں ۔ ویسے بھی طلباء کی اس طرح کی منفی حرکات اور تعلیمی اداروں میں ہتھیاروں کے استعمال سے نہ صرف تعلیمی اداروں کاتقدس خراب ہوتا ہے بلکہ وہ وقت بھی ضائع ہوتا ہے ، جو طلبہ کے لیے دوران تعلیم صرف قیمتی ہی نہیں بلکہ سرمایہ حیات کادرجہ بھی رکھتا ہے ۔