• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کرامت 50سالہ ایک محنتی شخص ہے ۔اس نے ایک پٹرول پمپ پر کرائے کی جگہ حاصل کر رکھی ہے جہاں یہ ٹائروں کو پنکچرز لگانے کا کام کرتا ہے ۔کرامت کے تین اور بھی بھائی ہیں جو اس ٹائر شاپ پر 24گھنٹے باری باری ڈیوٹی دیتے ہیں ۔بڑا ہونے کی وجہ سے کرامت ٹائر شاپ پر اب پنکچرز لگانے کی بجائے ٹائر شاپ کے حوالے سے دیگر امورکو نمٹاتا ہے ۔چونکہ یہ چاروں بھائی اکٹھے رہتے ہیں ۔اس لیے کرامت گھر کے معاملات کا بھی سربراہ ہے ۔کرامت کو میں گذشتہ کئی سالوں سے جانتا ہوں ۔کرامت میں ایک اور خوبی یہ ہے کہ یہ وکیلوں کی طرح نہ صرف قانون کو سمجھتا ہے بلکہ بال کی کھال اتارنے میں بھی لگا رہتا ہے ۔امریکہ سے لے کر پاکستان کی سیاست پر بحث کرتا ہے ۔پی آئی اے سے لے کر ریلویز تک کی خامیوں کو کریدتارہتا ہے ۔واپڈا کے نظام کو درست کرنے کے حوالے سے تجاویز بیان کرتارہتا ہے۔ کرامت تقریباً ایک سال سے میرے پیچھے لگا ہوا ہے کہ جلدی نہیں ہے لیکن آپ کے پاس جب بھی وقت ہو مجھے بتائیے گا میں نے آپ کو کچھ دکھانا ہے ۔میں اسکی عادت سے واقف ہونے کی وجہ سے ٹال جاتا کہ مجھے کوئی گندگی کا ڈھیر دکھا کر کہے گا کہ اسکا ذمہ دار کون ہے یا کوئی ٹوٹی ہوئی سڑک یا سڑک پرکھلا مین ہول دکھاکر کہے گا کہ یہ کتنا خطر ناک ہو سکتا ہے ۔لیکن گذشتہ روز اچانک ملاقات میں کرامت نے میری گاڑی کا اگلا دروازہ کھولا اور ساتھ بیٹھ گیا اور کہنے لگا ۔آج تو آپ کا آدھا گھنٹہ ضرور لوں گا۔میں بھی انکار نہ کر سکا۔ وہ مجھے گائیڈ کرتے ہوئے تقریباًراولپنڈی سے باہر ایک علاقے مورگاہ میں لے گیا ۔اس نے وہاں مجھے ایک نو تعمیر شدہ عمارت دکھائی ۔عمارت کافی بڑی تھی اور وسیع رقبے پر بنائی گئی تھی ، اس سے پہلے کہ میں کرامت سے پوچھتا کہ اس عمارت میں کیا خاص بات ہے کہ وہ مجھے یہاں لے کر آیا ہے ۔کرامت کہنے لگا سرجی یہ عمارت میرے بچوں نے بنائی ہے۔ میں حیرت سے کرامت کی طرف دیکھنے لگا اور اسکے الفاظ دہرائے تمہارے بچوں نے بنائی ہے ؟ کرامت کہنے لگا جی سرجی یہ عمارت میرے بچوں، میرے بھائیوں کے بچوں بلکہ اس شہرکے ہر اس غریب امیر کے بچوں نے بنائی ہے،جو خود کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا چاہتا ہے ۔میں ابھی کرامت سے سوال کرنا ہی چاہتاتھا لیکن کرامت نے مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کرتے ہوئے اپنی قمیض کی سائیڈ والی جیب میں سے ایک مڑا تڑا کاغذ نکالااور اسکو سیدھا کر کے مجھے بتانے لگا ۔کہ یہ عمارت 42کنال 6مرلے پر بنائی گئی ہے ۔بیسمنٹ کے علاوہ اسکے پانچ فلورہیں ۔یہ زمین 1989میں مارکیٹ سے مہنگے داموں خریدی گئی تھی ۔تاکہ اس پر بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن راولپنڈی (پنڈی بورڈ ) کی عمارت تعمیر کی جا سکے۔ کرامت نے بتایا کہ اسلام آباد پنڈی بورڈ راولپنڈی کے وسط میں واقع سکستھ روڈ اور اطراف میں 7مختلف کرائے کی عمارتوں میں قائم تھا۔کرائے سے نجات حاصل کرنے کے لیے اور ون ونڈو آپریشن کی سہولت کے لیے اس عمارت کو بنانے کے لیے 1989میں جس عمارت کے لیے زمین خریدی گئی تھی وہ تقریباً 24سال بعد مکمل ہوئی ہے ۔اب یہ عمارت مکمل ہو چکی ہے اور بورڈ کے پرانے دفاتر سے تقریباً 15کلومیٹر دور اب پنڈی بورڈ کے تمام دفاتر اسمیں منتقل ہو چکے ہیں ۔یہاں آنے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کا مناسب انتظام نہیں ہے ۔لیکن پھر بھی پرائیویٹ امتحان دینے کے امیدوار خود یا لڑکے ،لڑکیاں اپنے بوڑھے والدین کے ساتھ یہاں آتے ہیں، یہاں سے درخواست فارم لیتے ہیں تو ان بوڑھے والدین اور بچوں کو کہاجاتا ہے کہ وہ پندرہ کلومیٹر واپس جائیں اور وہاں بینک میں فیس جمع کروائیں ۔جمع شدہ فیس کا چالان فارم درخواست کے ساتھ لگائیں اورپھر 15کلومیٹر واپس جا کر بورڈ کے نئے دفتر میں جمع کرائیں ۔ون ونڈو کی اس سہولت سے امیدوار فائدہ اٹھانے کے لیے سارا دن لائنوں میں لگے رہتے ہیں یا سفر کرتے رہتے ہیں اور عموماًاس بھاگ دوڑ میں بورڈ کا دفتر بند ہو جاتا ہے ۔میں کرامت کی بات بڑے غور سے سن رہا تھا ۔لیکن میری سوئی کرامت کے پہلے فقرے میں پھنسی ہوئی تھی کہ اس عمارت کو میرے بچوں نے تعمیر کیا ہے۔ میں نے کرامت سے اس حوالے سے استفسار کیا تو کرامت نے میری طرف گھومتے ہوئے کہا ۔جی سر جی یہ عمارت تقریباً65کروڑ روپے میں مکمل ہوئی ہے اور یہ 65کروڑ حاصل کرنے کے لیے پنڈی بورڈ کی انتظامیہ پنڈی بورڈ میں رجسٹرڈ ہونے والے ہر بچے اور داخلہ فیس جمع کرانے والے ہر بچے سے 1990سے دس روپے پنڈی بورڈ عمارت فنڈکے نام پر حاصل کرتی رہی ہے اور ابتک حاصل کر رہی ہے، یہ 65کروڑ روپے جس میں کئی کروڑ محض کمیشن میں کھائے گئے ہوں گے میرے جیسے ٹائر پنکچر لگانے والے غریب محنت کشوں کے بچوں نے دس دس روپے جمع کر کے دیئے ہیں ۔لیکن ہمارے بچے پھر بھی سارا دن شہرکے ایک کونے سے دوسرے کونے میں بھاگتے پھر رہے ہیں ۔تاکہ وہ امتحان دے سکیں ۔
تازہ ترین