امریکا نے چاند کی دوبارہ تسخیر کے لیے آرتیمس نامی پروجیکٹ شروع کیا ہے۔ ناسا نے اس پروجیکٹ کے لیے تین خلائی گاڑیوں کی منظوری دی ہے ۔یہ انسان کو چاند تک لے کر جائیں گی ۔یہ گاڑیاں بلیو اوریجن ،ڈائنیٹکس اور اسپیس ایکس کمپنیاںتیار کریں گی ۔اور اس کے لیے تقریبا ً 967 ملین ڈالر کی رقم دی جائے گی ۔ اس رقم سے یہ تینوں کمپنیاں قمری لینڈر بنائیں گی۔اس موقع پر ناسا کے سربراہ جِم برائڈنسٹائن کا کہنا ہےکہ امریکا 1972 کے بعد سے اب تک دوبارہ چاند پر نہیں گیا اور یہ آخری کاوش ہے، جس کی بدولت ہم چاند پر جانا چاہتے ہیں۔
اس کے بعد ہر کمپنی اپنی سواری خود تیار کرے گی۔ بلیو اوریجن کمپنی یا تو اپنے نیوگلین راکٹ سے اسے چاند پر بھیجے گی یا پھر یونائیٹڈ الائنس ولکن راکٹ پر رکھ کر لینڈر کو قمر پر اتارے گی۔تاہم ڈائناٹیکس کمپنی اپنے لینڈر کو ولکن راکٹ کے ذریعے چاند پر پہنچائے گی۔ اسپیس ایکس کمپنی معاہدے کے تحت اسٹارشپ خلائی جہاز بنا کر اسے اپنی ہی کمپنی کے سپر ہیوی راکٹ کے ذریعے چاند پر پہنچا ئے گی۔ناسا کی ماہر لیزا واٹسن مورگن کے مطابق ہم امریکی صنعتوں کی افادیت دیکھنا چاہتے ہیں کہ آخر وہ کس طرح اس مقصد کو ممکمن بناتی ہیں۔خاص بات یہ ہے کہ تینوں کمپنیوں کی ٹیکنالوجی اور اختراعات بھی مختلف ہیں۔
بلیو اوریجن کے لینڈر کے تین حصے ہیں۔ اس میں چاند کے نچلے مدار سے لینڈر کو نیچے اتارا جائے گا۔ اس کے بعد مزید دو مراحل ہیں جن سے یہ مشن واپس آئے گا۔ لیکن ڈائناٹیکس اور اسپیس ایکس کی ٹیکنالوجی میں ایک ہی جست میں خلائی گاڑی کو چاند پر اتارنے، واپس اڑانے اور زمین تک لانے کا مکمل انتظام کیا گیا ہے۔ لیکن اب بھی ان ساری ٹیکنالوجی کو اپنی افادیت ثابت کرنا ہوگی۔ آرتیمس پروجیکٹ کے تحت پہلا مسافر 2024 تک چاند پر اتارا جائے گا۔اس میں ایک لینڈر کو مرکزی حیثیت کی حامل ہوگی جب کہ دولینڈر اضافی مشن انجام دیں گے۔