• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم آدمیوں اور عورتوں کے سر میں ﷲ سائیں نے جو بھیجا رکھا ہوا ہے وہ عجیب و غریب نہیں ہے، صرف عجیب ہے۔ بھیجا آپ کو کبھی بھی غریب ہونے نہیں دیتا۔ بھیجا آپ کو سوچ بچار، غم اور خوشی، دکھ اور سُکھ، خوف اور امید، ہنسنے اور رونے سے مالا مال رکھتا ہے۔ آپ کے غور و فکر کے خزانے آپ کا بھیجا کبھی خالی ہونے نہیں دیتا۔ اسلئے آپ کا بھیجا عجیب و غریب نہیں ہے۔ آپ کا بھیجا حیرت انگیز ہے، پُراسرار ہے۔ بچپن سے آج تک آپ نے چاہے کتنے ہی رٹے کیوں نہ لگائے ہوں، بھیجا آپ کو سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ آپ سُنی سنائی باتیں آسانی سے ہضم نہیں کرتے۔ آپ سنی سنائی باتوں کا منطقی جائزہ لیتے ہیں۔ لگے ہاتھوں، رٹی رٹائی باتوں پر چھان بین شروع کر دیتے ہیں۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ ہمارے سر میں بیٹھی ہوئی چیز جس کا نام بھیجا ہے، مغز ہے، برین ہے، جتنی زبانیں ہیں، اتنے اس کے نام ہیں، ہمارے بس میں نہیں ہے۔ ہم اپنے بھیجے کے بس میں ہوتے ہیں۔

کچھ زندہ لوگوں نے تحقیق کرنے کیلئے اپنی ٹیم بنالی۔ ٹیم جاننا چاہتی تھی کہ کورونا وائرس سے مرنے کے علاوہ کیا خلقِ خدا آج کل کسی دوسری بیماری سے نہیں مرتی؟ مثلاً کورونا کے نازل ہونے کے بعد لوگ اب کیا کینسر سے نہیں مرتے؟ کورونا کے بعد اب کیا لوگ ہارٹ اٹیک سے نہیں مرتے؟ لوگ کیا ہیپاٹائٹس سے نہیں مرتے؟ ٹیم معلوم کرنا چاہتی تھی کہ روڈ راستوں، گلی کوچوں میں چلتے پھرتے لوگ کیا کسی قسم کی بیماری میں مبتلا نہیں ہوتے؟ کیا وہ سب لوگ مکمل طور پر صحتمند ہوتے ہیں؟ بس، ٹیم نکل پڑی اپنی مہم پر، تین چار روز کی مہم جوئی کے بعد ٹیم نے اپنی رپورٹ جاری کر دی۔ رپورٹ کی ایک کاپی مجھ تک پہنچی ہے۔ رپورٹ کی چیدہ چیدہ باتیں میں آپ سے شیئر کرنا چاہتا ہوں۔سرکار نامدار پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے ہمیں روزانہ کورونا سے مرنے والوں کے اعداد شمار مستعدی سے بتاتی ہے جوکہ مجموعی طور پر سات آٹھ سو سے زیادہ نہیں ہے۔ سرکار پاکستانیوں کو یہ نہیں بتاتی کہ اس دوران کتنے لوگ کینسر، ہارٹ اٹیک، ہیپاٹائٹس ،گردوں کے امراض اور ایڈز کی وجہ سے مر چکے ہیں، ان کی تعداد کورونا سے مرنے والوں کی تعداد سے دگنی ہوتی ہے، تگنی ہوتی ہے۔ کہیں پر تو مرنے والوں کی تعداد کورونا کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد سے پچاس گنا زیادہ ہوتی ہے۔ روزانہ زچگی کے دوران کتنی خواتین اور بچے مر جاتے ہیں؟ اس کے بارے میں مصدقہ معلومات کسی کے پاس نہیں ہیں۔ ان کی تعداد کورونا سے مرنے والوں کی تعداد سے پچاسیوں مرتبہ زیادہ ہے۔ کورونا خطرناک ہے مگر جس طرح مربوط اور باضابطہ طریقے سے پاکستانیوں کے دل میں خوف بٹھایا جارہا ہے، وہ اعصاب شکن اور خود کورونا سے زیادہ خطرناک ہے۔ ہم ایک ڈری ہوئی، سہمی ہوئی اور مفلوج قوم میں بدلتے جارہے ہیں۔ پاکستان کی بائیس کروڑ کی آبادی کا ایک فیصد بنتا ہے بائیس لاکھ۔ کیا پاکستان کی آبادی کا ایک فیصد یعنی بائیس لاکھ افراد کورونا میں مبتلا ہے؟ سُنیں کہ پاکستان کی چالیس فیصد آبادی یعنی سات کروڑ کے لگ بھگ لوگ ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ غربت، مفلسی، ناانصافی، ظلم اور چوہدریوں، سرداروں، وڈیروں اور پیروں کے ہاتھوں رعایا کا استحصال ذہنی بیماریوں کو جنم دیتا ہے۔ سرکار کیوں چھپاتی ہے کہ تھر کے ایک چھوٹے سے شہر مٹھی کے اسپتال میں مرنے والے بچوں کی تعداد 325سے تجاوز کر گئی ہے؟ باقی ماندہ تھر میں روزانہ مرنے والے بچوں کے تعداد و شمار حکومت کے پاس نہیں ہیں، یا پھر رعایا سے چھپائے جارہے ہیں۔ تھر میں بچے کورونا سے نہیں مرتے۔ تھر میں بچے، غربت، ناقص پانی و غذا اور فاقوں سے مر جاتے ہیں۔

چار صوبوں کی حکومتیں اور پانچویں مرکزی حکومت کے کرتا دھرنا کبھی تو سچ بتائیں کہ پاکستان میں روزانہ کتنے لوگ خودکشی کر لیتے ہیں؟ پاکستان میں کتنے کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے پسماندگی کے پاتال میں زندگی گزارتے ہیں؟ کتنے کروڑ لوگوں کو دو وقت کا کھانا میسر ہوتا ہے؟ کتنے کروڑ لوگوں کو ایک وقت کا کھانا نصیب ہوتا ہے؟ کتنے کروڑ لوگ فاقوں میں زندگی بسر کرتے ہیں، بلکہ زندہ رہنے کی سزا بھگتے ہیں؟ اس سے زیادہ بھیانک تصویر کورونا کی نہیں ہے۔

رپورٹ کا آخری پیراگراف بڑا دلچسپ ہے۔ لکھا ہے کہ کورونا وائرس درپردہ معاشرے کیلئے، بلکہ دنیا کیلئے رحمت ہے، یعنی Blessing in disguiseہے۔ کورونا سے بچنے کی تدابیر نے دنیا بھر کے کارخانے بند کرا دیے ہیں۔ سوائے جنگی اسلحہ اور گولہ بارود بنانے کے کارخانوں کے۔ دنیا میں تباہی لانے والے کارخانے چل رہے ہیں۔ باقی سب کچھ بند ہے۔ ریل گاڑیاں، جہاز، ہوائی جہاز، موٹر گاڑیاں، سب بند ہیں۔ دنیا 70فیصد ماحولیاتی آلودگی سے پاک ہو چکی ہے۔ پچھلے پچاس برسوں میں شاید ہی دنیا نے آلودگی سے پاک بین الاقوامی ماحول دیکھا ہو!گندی گیسوں کی وجہ سے سورج کی بےرحم شعاعوں اور زمین کے درمیان ڈھال اوزون میں ہیبت ناک سوراخ اور شگاف پڑ گئے تھے۔ دنیا بھر میں لاک ڈائون کی وجہ سے زمین سے زہریلے گیس، گردوغبار اُٹھنا بند ہو گئے ہیں۔ نتیجتاً اوزن لیئر کے شگاف اور سوراخ بند ہو گئے ہیں۔ اس لحاظ سے کورونا کو تھینکس تو کہنا پڑے گا۔ یہ میں نے نہیں کہا،رپورٹ میں لکھا ہوا ہے۔

تازہ ترین