• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد عُمر قاسمی

صوبۂ پنجاب کے شہر، نارووال کے قریب کرتار پور نامی ایک چھوٹا سا قصبہ واقع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 1521ء میں سِکھ مَت کے بانی، بابا گورو نانک اس مقام پر تشریف لائے تھے اور انہوں نے کرتار پور یعنی ’’خدا کی بستی‘‘ کے نام سے ایک گاؤں آباد کیاتھا۔ یہاں انہوں نے کھیتی باڑی کے ساتھ اپنے مذہب کی تبلیغ بھی جاری رکھی اور 1539ء میں یہیں وفات پائی۔ انہی کی نسبت سے پاک، بھارت سرحد سے محض 3.5کلو میٹر کے فاصلے پر کرتار پور میں دریائے راوی کے کنارے ایک گورد وارہ بھی قائم ہے۔ سرحد پار موجود سِکھ یاتریوں کی گوردوارہ کرتار پور میں مذہبی رسومات ادا کرنے کی خواہش پر 1999ء میں حکومتِ پاکستان نے بھارت کو کرتار پور میں باڑ لگا کر ایک راہ داری تعمیر کرنے کی پیش کش کی تھی، لیکن بھارتی حکومت کی عدم دِل چسپی کے باعث ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ 

بعد ازاں، نومبر 2019ءمیں بابا گورو نانک کے 550ویں جنم دن کی تقریبات کے سلسلے میں کرتار پور راہ داری کا افتتاح کیا گیا اور پھر بھارتی یاتری اپنی مذہبی رسومات کی ادائی کے لیے گورد وارے پر آنے لگے۔ تاہم، کرتا پور راہ داری کُھلتے ہی بالخصوص پاکستان کے مذہبی طبقے میں بے چینی اور اضطراب پیدا ہو گیا اور مختلف سوالات گردش کرنے لگے۔ معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے کرتار پور مینجمنٹ اتھارٹی نے مُلک بَھر کے علما و مشائخ کو راہ داری کے دورے کی دعوت دی۔ چناں چہ 13جنوری کی صبح صاحب زادہ مولانا زاہد محمود قاسمی، قاری زوار بہادر، صاحب زادہ خالد محمود قاسمی، صاحب زادہ سعید الرّشید عبّاسی، مولانا عبد القدّوس محمّدی، مولانا تنویر علوی، علاّمہ عتیق الرحمٰن شاہ، مولانا مشتاق چیمہ اور پیر رشید احمد رضوی سمیت راقم کو بھی کرتار پور جانے کا اتفاق ہوا۔ 

کرتار پور پہنچنے پر وفد کو نہایت احسن انداز میں خوش آمدید کہا گیا اور سب سے پہلے بریفنگ رُوم لے جایا گیا، جہاں تلاوتِ قرآنِ کریم کے بعد ایک دستاویزی فلم دکھائی گئی اور پھر انتہائی جامع انداز میں بریفنگ دی گئی۔ بریفنگ کے دوران کرتار پور کی اہمیت، حکومتی اقدامات، سرحد پار سے آنے والے یاتریوں کے داخلے کے طریقۂ کار، توسیعی منصوبوں خصوصاً انتہائی قلیل عرصے میں تعمیر کیے گئے دریائی پُل اور سیکوریٹی زونز سے متعلق آگاہ کیا گیا۔ بریفنگ کے اختتام پر سوالات و جوابات کا سیشن رکھا گیا، جس میں علمائے کرام نے کُھل کر سوالات کیے اور اتھارٹی کے نمایندے نے ان کے تسلّی بخش جوابات دیے۔

سب سے پہلا اور اہم سوال یہ تھا کہ ’’کیا کرتار پور راہ داری کے ذریعے اُس پار سے کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کی آمدورفت ممکن ہے؟‘‘ جواب میں بتایا گیا کہ ’’کرتار پور راہ داری کے راستے صرف بھارتی سِکھ، ہندو یا بابا گورو نانک سے گہری وابستگی رکھنے والے یاتری ہی آ سکتے ہیں۔ نیز، یہاں اُن کی نقل و حرکت ایک مخصوص حصّے تک محدود ہو گی اور اس عمل کو یقینی بنانے کے لیے ایک عالمی سطح کا سیکوریٹی زون قائم کیا گیا ہے۔ یہاں سب سے پہلے یاتریوں کی سفری دستاویزات چیک کی جاتی ہیں ، پھر اُنہیں 20ڈالرز کے عوض ایک کُوپن جاری کیا جاتا ہے اور پھر اُنہیں سامان کی جانچ پڑتال اور فنگر پرنٹس کی اسکیننگ سمیت دیگر مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ 

نیز، واپسی پر بھی یاتری اپنے ناموں سمیت دیگر کوائف مع فنگر پرنٹس جمع کروا کر تصدیقی مرحلے سے گزرنے کے بعد اپنے مُلک میں داخل ہوتے ہیں۔‘‘ اس جواب سے یہ واضح ہوا کہ بھارت سے آنے والے یاتری مخصوص زون سے باہر نہیں جا سکتے اور جدید سیکوریٹی نظام کی بدولت یہ بھی یقینی بنایا جاتا ہے کہ واپس جانے والا یاتری وہی ہے، جو پاکستان میں داخل ہوا تھا۔ دوسرا اہم سوال یہ تھا کہ ’’کیا کرتار پور راہ داری کے ذریعے پاکستان سے تعلق رکھنے والے افراد بھی انفرادی یا اجتماعی طور پر بھارت جا سکتے ہیں؟‘‘ اس سوال کا واضح جواب یوں دیا گیا کہ ’’کرتار پور راہ داری صرف بھارت سے آنے والے یاتریوں کے لیے ہے اور پاکستان سے کوئی بھی فرد، چاہے وہ کسی دوسرے مُلک ہی سے کیوں نہ آیا ہو، کرتار پور راہ داری کو سرحد کے اُس پار جانے کے لیے بطور گزر گاہ استعمال نہیں کر سکتا۔ اگر پاکستان سے کوئی بھارت جانا چاہتا ہے، تو اُسے بھارتی ویزا حاصل کرنے کے بعد فضائی سفر یا یا واہگہ بارڈر کا راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔‘‘ تیسرا اہم سوال یہ تھا کہ ’’کرتار پور راہ داری کے اخراجات کون اُٹھا رہا ہے؟‘‘ اس کے جواب میں وفد کو بتایا گیا کہ ’’ راہ داری پر اُٹھنے والے تمام اخراجات حکومتِ پاکستان نے برداشت کیے ہیں اور ان میں کسی دوسرے مُلک، تنظیم یا کمیونٹی نے کوئی حصّہ نہیں ڈالا، جب کہ گوردوارے کا لنگر خانہ سِکھ کمیونٹی خود چلاتی ہے۔ 

حکومتِ پاکستان کی جانب سے کیے گئے اخراجات کی تمام تر تفصیل محکمۂ اوقاف کے پاس موجود ہے اور یاتریوں سے حاصل کی جانے والی رقم نیشنل بینک کے ذریعے حکومتی خزانے میں جمع کروائی جاتی ہے۔‘‘ سوال و جواب کا سیشن ختم ہونے کے بعد علمائے کرام کو داخلی راستے، یاتریوں کی تصدیق کے لیے بنائے گئے کائونٹرز، گوردوارے میں موجود لائبریری، باڑ، درجن سے زاید چیک پوسٹس، جدید کیمروں پر مشتمل واچ سینٹر اور سیکوریٹی کے ترتیب وار مراحل سمیت دیگر مقامات کا تفصیلی دورہ کروایا گیا، جس پر وفد میں موجود تمام شخصیات نےکرتار پور مینجمنٹ اتھارٹی کا شکریہ ادا کیا۔

تاہم، یہاں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کرتا پور راہ داری کی تعمیر سے پاکستان کو فائدہ ہوا؟ اس راہ داری کے ذریعے پاکستان نے فوری طور پر تین بڑی کام یابیاں سمیٹیں۔ پہلی کام یابی بھارت پر اخلاقی فتح ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت انتہا پسند ہندوئوں نے بھارت میں موجود مذہبی اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں کا جینا مشکل کر رکھا ہے، جب کہ پاکستانی اقلیتیں محفوظ و مسرور ہیں۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں آتش و آہن برسا رہا ہے، جب کہ نانک پور گوردوارے کے پُھولوں کی خوش بُو پورے خطّے کو معطّر کر رہی ہے۔ پاکستان کی دوسری کام یابی سِکھ برادری کے دل جیتنا ہے ۔ 

اب بابا گورو نانک کے پیرو کاروں کی ہم دردیاں اور نیک تمنّائیں پاکستان کے ساتھ ہیں اور اگر کسی کو یقین نہیں آتا، تو وہ کرتار پور کا ایک چکر لگا آئے۔ تیسری کام یابی سیّاحت کا فروغ ہے۔ یاد رہے کہ جب بھی کسی مُلک کا شہری دوسرے مُلک جاتا ہے، تو اپنا سرمایہ ساتھ لے کر جاتا ہے اور آج دُنیا بَھر میں موجود سِکھ یاتری پہلے سے زیادہ اپنے مذہبی مقامات کی زیارت کے لیے پاکستان کا رُخ کر رہے ہیں، جس کے ثمرات پاکستان میں معاشی سرگرمیوں میں تیزی کی صُورت نظر آئیں گے۔ ہماری دُعا ہے کہ مملکتِ خداداد پاکستان اسی طرح کام یابیاں سمیٹتا رہے۔

تازہ ترین