• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا وائرس کے دنیا بھر میں پھیلتے چلے جانے سے پاکستان سمیت دُنیا بھر کے ملکوں کی معیشتوں کو زبردست نقصانات کا سامنا ہے۔ اس انتہائی مشکل وقت میں ہماری اہم ترین ترجیح لوگوں کی زندگیاں بچانا، کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنا اور کروڑوں عوام کی مشکلات و تکالیف میں تیزی سے کمی لانا ہونا چاہئے خواہ اس کیلئے حالیہ اقتصادی پیکیج کے علاوہ اسٹیٹ بینک کو کئی سو ارب روپے کے نوٹ ہی کیوں نہ چھاپنا پڑیں۔ کورونا کی وبا سے دنیا تیزی سے بدل رہی ہے۔ کرۂ ارض پر رہائش پذیر 7؍ارب نفوس کی طرزِ زندگی بھی یقیناً پہلے جیسی نہیں رہے گی۔ محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔

اس حقیقت کو بھی اب تسلیم کرنا ہوگا کہ صرف معیشت کی شرح نمو بڑھانے میں کامیابی حاصل کرنا قطعی ناکافی اور ناقابلِ قبول ہوگا۔ کورونا کے بعد کے منظرنامے میں اہمیت تیز رفتار معاشی ترقی حاصل کرنے کی ہو گی۔ یعنی تیز رفتار معیشت کی شرح نمو کے ساتھ بھوک و ناخواندگی کا خاتمہ، علاج و معالجہ کی بہتر سہولتیں، روزگار کے زیادہ مواقع، بیروزگاری کی شرح میں کمی، غربت میں کمی، غریب اور امیر کے فرق میں کمی، افراد کی پیداواریت میں اضافہ، فی کس آمدنی میں اضافہ، عام لوگوں کے معیار زندگی میں بہتری اور انفارمیشن ٹیکنالوجی و انجینئرنگ کے شعبے میں تحقیق و ترقی، منصوبہ بندی اور اضافی سرمایہ کاری کے ذریعے برآمدات میں تیزی سے اضافہ حکومت نے اپنے انتخابی منشور سے یکسر انحراف کر کے عدل پر مبنی ٹیکس پالیسی اور تعلیم و صحت کی مدمیں جی ڈی پی کے تناسب سے 7.6فیصد مختص کرنے کے بجائے عوام پر ٹیکسوں کا غیرمنصفانہ بوجھ ڈالتے چلے جانے کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔ چنانچہ غربت، مہنگائی اور بےروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ وزیراعظم نے کورونا وائرس پھیلنے کے بعد 1200ارب روپے کا جو اقتصادی پیکیج دیا ہے اس کا ایک چھوٹا سا حصہ غریب اور بےروزگار ہونے والے افراد کیلئے مختص کیا ہے۔ جبکہ اس کے بڑے حصے سے مالدار اور طاقتور افراد مستفید ہوں گے۔ موجودہ حکومت کو 5.5فیصد کی شرح نمود اور 3.9فیصد افراطِ زر کی شرح ورثے میں ملی تھی۔ ہم نے جنوری اور فروری 2020میں متعدد بار کہا تھا کہ موجودہ حکومت کے 5سالہ دور میں معیشت کی اوسط شرح نمو اس سے بہت کم اور افراطِ زر کی اوسط شرح اس سے زیادہ رہے گی جو اسے ورثے میں ملی تھی۔

کورونا وائرس پھیلنے سے ہمارے صحت کے نظام کی کمزوریاں اور ناکافی سہولتیں کھل کر سامنے آگئی ہیں چنانچہ یہ ازحد ضروری تھا کہ پہلے مرحلے میں مکانات کی تعمیر کے بجائے ہزاروں چھوٹے بڑی ڈسپنسریاں (چھوٹے دوا خانے) تعمیر کرانے کی منصوبہ کی جاتی۔کوروناوائرس کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کیلئے اسٹیٹ بینک نے شرح سود کو 13.25فیصد سے کم کرکے 8فیصد کر دیا ہے۔ اس فیصلے سے حکومت کے علاوہ خصوصی طور پر 51000قرضوں کے بڑے کھاتے رکھنے والوں کو تو فائدہ پہنچا لیکن اسٹیٹ بینک نے بینکنگ کمپنیز آرڈیننس کی ورزیاں کرتے ہوئے (ق 26؍الف (4)اور40؍الف )بینکوں میں بچت کھاتے رکھنے والوں کی شرح منافع 11.25فیصد سالانہ سے کم کر 6.5فیصد کر دی جس سے تقریباً 21ملین بچت کھاتوں پر ایک برس میں تقریباً 325؍ارب روپے کم منافع ملے گا۔ جون 2020کو پیش کئے جانے والے بجٹ میں جاری حسابات کے خسارے کو کم کرنے کیلئے ترسیلات کی رقوم کو استعمال کرنے سے بچنے کی حکمت عملی وضع کرنا ہو گی کیونکہ یہ آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ملک میں روزگار کی بڑے پیمانے پر فراہمی کیلئے ہم انتہائی مؤثر اور قابل عمل حکمت عملی کے چند نکات پیش کر رہے ہیں۔ اس حکمت عملی کو بجٹ تقریر کا حصہ بنایا جائے۔

1۔ بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام اور احساس پروگرام کو مائیکروفنانس سے منسلک کر دیا جائے۔

2۔ اس اسکیم سے الیکٹریشن، کارپینٹر، پلمبر، درزی، میکنیک، کسان اور دوسری چھوٹی گھریلو صنعتیں قائم کرنے کےخواہش مند خواتین و حضرات مستفید ہو سکیں گے۔

3۔ اس اسکیم کے تحت مثلاً اگر ایک کارپینٹر کو کاروبار شروع کرنے کیلئے دو لاکھ روپے کی ضرورت ہے تو بینک 150,000/-روپے کا قرضہ دیں جبکہ ’’ایکویٹی‘‘ کی مد میں 50000/-روپے کاروبار میں لگانے کی شرط پوری کرنے کیلئے رقم بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام یا احساس پروگرام سے ادا کی جائے گی۔

4۔ اگر ان دونوں پروگراموں کے تحت بجٹ میں مختص کی گئی رقوم میں سے صرف 50ارب روپے قرضوں کی ایکوٹی کیلئے استعمال کئے جائیں تو ایک سال میں لاکھوں افراد کو 200؍ارب روپے کاروبار شروع کرنے کے لئے مل جائیں گے جس میں بینکوں کا 150؍ارب روپے کا قرضہ بھی شامل ہو گا۔

5۔ اسٹیٹ بینک اس اسکیم کیلئے قواعد و ضوابط کا اعلان کرے۔

گزشتہ دنوں 10ویں قومی مالیاتی کمیشن کی تشکیل کے ساتھ ہی کمیشن کو متعدد نئے نکات غور کے لئے دیئے گئے ہیں۔ اس سے ملک میں انتشار بڑھے گا اور کمیشن ان نکات کے ضمن میں اتفاق رائے پیدا کرنے میں ناکا م رہے گا۔ اصل مسئلہ وفاق اور صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم کے فارمولے کا نہیں بلکہ مجموعی وسائل حجم کا ہے۔ تینوں بڑی پارٹیوں کے انتخابی منشور میں گزشتہ 7برسوں سے یہ بات شامل رہی ہے کہ وفاق اور صوبے ایک مقررہ رقم سے زائد ہر قسم کی آمدنی پر مؤثر طور پر ٹیکس عائد کریں گے۔ لیکن بوجوہ ایسا نہیں کیا جا رہا اگر جون 2020کو پیش کئے جانے والے وفاقی اور صوبائی بجٹ میں ایسا نہیں کیا جاتا تو تعلیم و صحت کی مد میں جی ڈی پی کا 7.6فیصد مختص کرنا اور معیشت کو پہلے سے درپیش چیلنجز اور کورونائی معیشت کے خطرات سے نمٹنا ممکن نہیں ہوگا۔

تازہ ترین