کورونا وائرس کی وجہ سے متحدہ عرب امارات میں پھنسے ہوئے ہزاروں پاکستانیوں کی خواہش ہے کہ جلد از جلد اپنے وطن پہنچ جائیں۔ سوشل میڈیا اخبارات اور سفارت خانہ و قونصلیٹ کی ویب سائٹ پر پیغامات اور دکھ بھری داستانوں کا زور ہے۔ کوئی ملازمت کے لئے سیاحتی ویزہ پر آیا، کوئی نوکری سے برطرف اور کسی کو کمپنیاں اور اداروں نے طویل رخصت پر بھیج دیا ہے۔ ہر کوئی وطن جانا چاہتا ہے، اس پریشانی میں ان کے مسائل تو دور کی بات کوئی فون سننے کے لئے بھی تیار نہیں۔ تارکین وطن اپنے دکھ، درد اور پریشانی کو ایک دوسرے سے شیئر کررہے ہیں۔ اب حکومت پاکستان، سفارت خانہ اور قونصلیٹ کے لئے بڑا امتحان اور چیلنج ہے کہ اس بحران یا آفت سے کس طرح نبرد آزما ہوں۔ ایسے ہزاروں سوالات ہیں۔ قونصلیٹ کے قریبی علاقے میں درجنوں پاکستانی فٹ پاتھ پر سوکر راتیں گزاررہے ہیں۔ ان کے پاس کھانے اور رہائش کے لئے رقم نہیں ہے۔ عجیب صورت حال بلکہ دردناک ہے۔
میڈیا بھی اپنے سفارتی مشن سے سوال کرتا ہے کہ کیا ہورہا ہے اور کیا ہوگا؟ قونصل جنرل پاکستان احمد امجد علی نے دبئی قونصلیٹ میں صحافیوں کو دعوت دی کہ وہ کھل کر سوالات کریں ،اس موقعے پر قونصل جنرل نے بتایا کہ یو اے ای سے 21مارچ سے فلائٹس بند ہوئی ہیں۔ اس وقت ایئرپورٹ پر 101 پاکستانی پھنس گئے تھے۔ پہلے انہیں پاکستان بھجوایا،قیدیوں کو چارٹر پروازوں کے ذریعے بھیجا گیا جس کے لئے حکومت دبئی نے جہاز مہیا کئے۔ 18اپریل سے لے کر مئی کے پہلے ہفتہ تک 15خصوصی پی آئی اے کی پروازوں کے ذریعے 2870پاکستانیوں کو لاہور، اسلام آباد، پشاور، کراچی، ملتان اور فیصل آباد بھیج چکے ہیں۔ زیادہ ترپاکستانی پنجاب اور خیبرپختونخوا جاناچاہتے ہیں۔ ابھی تک پاکستان جانے کے لئے 63ہزار افراد نے سفارتی مشن میں رجسٹرڈ کروایا ہے،جو کہ بہت بڑی تعداد ہے۔
اتنی لمبی لسٹ ہے کہ سب کو خوش اور فوری طورپر بھیج نہیں سکتے۔ میرے علم میں یہ بھی آیا ہے کہ کچھ لوگ ٹکٹ بلیک میں فروخت کررہے ہیں جس کا قونصلیٹ نے سخت نوٹس لیا ہے۔ ہم نے ایک پیغام کے ذریعے امارات میں مقیم پاکستانیوں کو مشورہ دیا ہے کہ جو کوئی غیرقانونی ٹکٹ فروخت کرنے کا کہتا ہے اس کی اطلاع پاکستانی سفارتی مشن اور مقامی حکام کو دیں، فوراً کارروائی ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان سمیت پوری دنیا کورونا وائرس کی وجہ سے ایمرجنسی صورت حال سے دوچار ہے ، واقعی مشکل وقت ہے جس کا ہمیں پورا احساس ہے اس مشکل وقت میں ہمیں ایک دوسرے کا سہارا بننے کی ضرورت ہے۔ اس وقت صبر سے کام لینے کی ضرورت ہے۔
احمد امجد علی نے مزید کہا کہ دبئی اور شمالی امارات میں مقیم پاکستان برادری قونصلیٹ کا رخ نہ کریں۔ ہم نے وطن واپسی کا عمل تیز کردیا ہے اور قونصل خانہ میں رجسٹرڈ افراد کو پاکستان بھیج دیا جائے گا۔ پہلی ترجیح ان لوگوں کو دی جارہی ہے جن کے ویزے کی میعاد ختم ہوگئی ہے،یہاں ان کی ملازمت ختم ہوگئی ہے، حاملہ خواتین، طبی یا خاندانی صورت حال سے گزرنے والےافراد، تمام لسٹیں میرٹ پر بنائی گئی ہیں۔ ابھی بھی گیارہ ہزار کے قریب ایسےافراد ہیں جو سیاحتی ویزے پر امارات آئے۔ ان کا ویزہ اور موجودہ رقم ختم ہوگئی ہے، انہیں پہلے بھیجا جائے گا۔ قونصلیٹ عملہ، پی آئی اے حکام اور افسران دن رات مل کر کام کررہے ہیں۔ یہ سب کچھ ہمارے لئے کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔
میں پاکستانی برادری سے کہتا ہوں کہ زیادہ کرایوں پر ٹکٹ نہ خریدیں کیونکہ حکومت پاکستان نے اوورسیز کا خیال کرتے ہوئے تمام نامزد شعبوں میں جہاں خصوصی پروازیں چلائی ہیں وہاں ٹکٹوں کی قیمت بھی مقرر کردی ہے۔ پی آئی اے کے علاقائی منیجر شاہد چونکہ کورونا وائرس میں مبتلا ہیں، پی آئی اے اسٹاف قرنطینہ میں ہے، کچھ ٹریول ایجنٹ، اسٹینڈ بائی ٹکٹوں کا اجرأکررہے ہیں جوکہ غلط ہے۔ ایسے ٹکٹ خریدنے سے پہلے فضائی کمپنی سے تصدیق کرلی جائے، آیا ایسی کوئی فلائٹ جارہی ہے یا نہیں۔
قونصلیٹ میں کسی بھی قسم کے ٹکٹ فروخت نہیں کئے جارہے ۔ پاکستان جانے کے خواہش مندوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جن کو ٹکٹ فوراً نہیں ملتے، وہ قونصلیٹ کے بارے میں غلط افواہیں پھیلاتے ہیں۔ پاکستان واپس جانے والوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ پی آئی اے کے علاوہ دیگر ایئرلائنز سے 1800افراد پاکستان جاچکے ہیں۔ انہیں منسٹری آف ہیومن سورسز یو اے ای اپنے اخراجات پر بھیج رہی ہے۔ ان پر پاکستانی سفارتی مشن کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ قونصل جنرل نے میڈیا سے بھی درخواست کی کہ ہمارا ساتھ دیں۔میرے بس میں ہو تو رجسٹرڈ افراد کو فوراً پاکستان بھجوادوں۔
پاکستان میں اتنے زیادہ افراد کے لئے قرنطینہ کا بندوبست نہیں ہے، سب سے بڑا یہی مسئلہ ہے قونصلیٹ کے باہر غیر ضروری رش سے پرہیز کیا جائے جب کہ پاکستان واپسی کے لئے ایک بار رجسٹریشن کروانے والے دوبارہ اس عمل سے پرہیز کریں۔ ایسا کرنے سے ان کانام نیچے چلا جائے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ اسٹاف کی کمی کی وجہ سے سب کو کال کرنا ممکن نہیں ہے لیکن رجسٹریشن کروانے والے ہر فرد کی واپسی ہماری ذمہ داری ہے، مسافروں سے کم کرایہ ہی وصول کیا جارہا ہے لیکن جو لوگ زیادہ کرایہ افورڈ کرسکتے ہیں انہیں دوسری زیادہ کرایے والی کلاس میں بھیجا جاتا ہے۔ میں یہ بھی بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ دنیا میں پاکستان کے 118مشن ہیں جن میں سے سب سے پہلے متحدہ عرب امارات سے پاکستانیوں کو واپس بھیجنے کا سلسلہ شروع کیاگیا ہے۔
پی آئی اے کی پروازوں میں عالمی معیار کے مطابق احتیاطی تدابیر کا پوری طرح خیال رکھا جارہا ہے۔دو سیٹوں پر صرف ایک مسافر کو بٹھایا جاتا ہے۔میں خود ایئرپورٹ جاکر بندوبست اور انتظامات کو دیکھتا ہوں۔ پاکستانیوں کی خدمت میرا فرض ہے۔ ساتھ ساتھ ہم دبئی اور گردونواح میں پاکستانیوں تک راشن بھی پہنچا رہے ہیں جس کے لئے 22ہزار افراد نے رجسٹرڈ کروایا ہے۔ مخیر حضرات اور پاکستان ایسوسی ایشن بھی پورا تعاون کررہے ہیں۔ اب تک ہم 14200افراد تک راشن تھیلے پہنچا چکے ہیں۔
یہ راشن گھروں میں جاکر تقسیم کیا جارہا ہے۔ میں ان تمام افراد کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر راشن خرید کر دے رہے ہیں۔ ہم لیبر کیمپوں میں بھی راشن پہنچا رہے ہیں۔ کچھ عرصہ سے قونصلیٹ میں خدمات کا کام رکا ہوا ہے، جو شروع کررہے ہیں ۔ قونصل جنرل احمد امجد علی نے کہا کہ ہدف مشکل ہے لیکن ہم سب مل کر اسے پورا کرلیں گے۔ کمیونٹی اور میڈیا ساتھ دے ہم سب اس بحران اور آفت سے نکل جائیں گے۔