• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے دنوں جب معلوم ہوا کہ صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور میں انسدادِ کووڈ 19اور امورِ صحت کے دیگر امور دیکھ کر کہا ’’میرے خوابوں کو تعبیر ملنے جارہی ہے!‘‘، راقم نے اسے محض ایک سیاسی جملہ سمجھا اور حلقۂ احباب میں فوری ردِعمل یہ تھا کہ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز اگر گمبٹ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (جگر کی پیوند کاری میں عالمی معیار کا ادارہ) اور نیشنل انسٹیٹیوٹ آف کارڈیو واسکولر ڈزیزز سکھر و کراچی (امراض قلب کا باکمال ادارہ) سے کنسوشیم بنا کر آگے بڑھے تو شیخ زید اسپتال کے وجود کو واقعی جواز اور پنجاب بھر کی صحت کو تحقیقی اور حقیقی تقویت ملے کیونکہ رواں سال فروری میں میں شہید محترمہ بینظیر میڈیکل یونیورسٹی لاڑکانہ، GIMSاور NICVDکا میڈیکل اور انجینئرز کی ایک ٹیم کے سنگ دورہ کرکے آیا۔ طلبہ و اساتذہ سے بھی مخاطب ہوا تھا، متذکرہ اداروں کی کارکردگی کو اپنے اور عام آدمی کے خوابوں کی تعبیر پایا۔

کووڈ 19جہاں پورے عالم کیلئے دردِ سر بنی وہاں کورونا وائرس عالمی ٹیچر اور اگزامنر بنا، محمود و ایاز کو ایک کسوٹی پر رکھ دیا۔ نئے انداز دیے، ڈیجیٹل ویلیوز مزید بڑھا دیں، کئی اشیا ابھی گزر گاہوں ہی میں بھٹک رہی تھیں کہ ان کا سفر تیز ہوا اور انہوں نے ایمرجنسی حالات میں منزل پائی۔ انسان دھیرے دھیرے ٹیلی میڈیسن کی جانب بڑھ رہا تھا، جو سفر میں تھے وہ کورونا کنڈیشن میں کمال تک پہنچے، کئی نے آغازِ سفر کیا۔ ہائر ایجوکیشن ہی کو دیکھ لیں جن کے براؤزر اور ویب سائٹس مضبوط تھیں انہوں نے آن لائن ایجوکیشنل سروسز جاری رکھیں اور آج وہ اس نتیجہ اور عملی صورت میں ہیں کہ بلینڈڈ ایجوکیشن ہی اب ایمرجنگ گلوبل ٹرینڈز ہیں اور آنے والے دنوں میں وہ سست رو اداروں کے مقابلے میں تیزگام اور تیز رو ہوں گے۔

سن 2018میں جب سندھ میں وومن ای-ڈاکٹرز (ڈیجیٹل تکنیک سے فاصلاتی کلینکل مہارت) کا آغاز ہوا تو ہم نے اسے بھی بلاول بھٹو اور طبی ماہرین کی ایک سیاسی پوائنٹ اسکورنگ جانی مگر وہ تو پینتیس ہزار ان لیڈی ڈاکٹرز کو متحرک کرنے کے درپے تھے جو اپنا پروفیشن چھوڑ چھاڑ کر گھر بیٹھی تھیں مگر اس پروگرام سے تو سندھ میں آٹھ ہزار آئسولیٹڈ کووڈ 19مریضوں کو ورچوئل ڈیجیٹل تکنیک سے کلینکل سہولت فراہم کی گئی۔

راقم نے اس عالمی وبا کے شبانہ روز میں تاحال 10بڑی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز سے ڈیجیٹل بات چیت جاری رکھی جسے اپنے قارئین و ناظرین و سامعین و ماہرین کی نذر کیا سب کو آٹے دلیے کے بھاؤ کا احساس رہے۔ ان گفتگوؤں سے صاحبانِ نظر منتظمین و ماہرین نے استفادہ بھی کیا، وائس چانسلرز نے اپنے پروفیسران کے اسٹڈی سرکل بھی کئے۔ دسویں وائس چانسلر، یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم تھے۔ معلوم ہوا کہ انہوں نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی ہی نہیں ہم عوام کے خوابوں کی تعبیر کو بھی جلا بخشی ہے۔ ہم ملٹی ورسٹی اور کنسوشیا اسٹرٹیجک الائنسز کے خواب دیکھتے تھے، معلوم ہوا وہ پنجاب یونیورسٹی سے مالیکیولر بیالوجی کے کام کیلئے ہم جا ہو گئے، کروڑوں کی مشینیں دونوں ادارے شفٹوں میں شیئر کریں گے۔ پنجاب یونیورسٹی کا جدید میڈیکل کلینک بنانے میں بھی یو ایچ ایس اس کی مدد کررہی ہے۔ شاید ہم اس بات سے بھی ناآشنا تھے کہ گورنر پنجاب زیادہ سود مند چانسلر نہیں لیکن کھلا یہ راز کہ وہ ہر عملاً متحرک وی سی کے سنگ ہیں۔ یو ایچ ایس نے پلازما کی فراہمی اور ’’اخوت‘‘ رفاہِ عامہ تنظیم کے ساتھ خدمتِ خلق کے معاہدہ اور ایک یادداشت پر دستخط بھی کیے ہیں۔ بین الاقوامی مثالی اداروں کے ساتھ پروفیسر جاوید اکرم کی سفارتکاری بھی رنگ لائی ہے۔ کامیاب ٹیلی میڈیسن، جراثیم کش ٹنل، معیاری اور سستے ماسک و سینی ٹائزر اور کٹس میں کام کرکے یونیورسٹی، انڈسٹریل لنک اور انٹرپرنیور شپ کی شاہرہ پر چلنے کے ہمارے خواب کو خوب تقویت پہنچائی۔ یہی ماڈرن یونیورسٹی کیلئے صداقت عامہ ہے۔ اڑتی ہوئی ملی ہے خبر بزمِ ناز سے کہ صدرِ مملکت نے یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے دورہ پر خود ٹیلی میڈیسن اسٹال پر فون کالز لیں اور طبی مشورے دیے۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ صدر صاحب میڈیکل شخصیت ہونے کے ناتے چاروں صوبوں اور کشمیر و گلگت بلتستان کے ایک ایک میڈیکل ادارے اور اسپتال کو گود لے لیں ایسے میں مدتوں یاد رہیں گے! ہم غریب عوام تو یہ بھی چاہتے ہیں کہ کم از کم اس کورونا کنڈیشن میں صدرِ مملکت بطور میڈیکل پرسن کبھی کبھی صحت کے معاون خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا سے بھی نشست رکھ لیا کریں تو عنایت ہوگی، ممکن ہے معاونِ محترم واقعی ’خصوصی‘ طرزِ عمل کے حامل ہی ہو جائیں۔

کووڈ 19وبا تو ہے ہی مگر امتحان اور چیلنجز کا سامنا کرنے کا نصاب اور گرو بھی۔ دیکھنا یہ ہے کہ سیاسیات و سماجیات، اسلامیات و تعلیمات، معاشیات و شماریات اور ریاست اس سے کیا سیکھتے ہیں۔ زمانے کی تاریخ ہو یا تاریخِ اسلام، ان کا سبق یہی ہے کہ عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی اور جہنم بھی۔ اگر ریاست، ’خصوصی‘ اور بیکار پرزوں کے علاوہ ماہرین امورِ صحت و تعلیم نے اب بھی کچھ نہ سیکھا تو بات انشا جی والی ہی ہو گی کہ:

ہم سے نہیں رشتہ بھی ہم سے نہیں ملتا بھی

ہے پاس وہ بیٹھا بھی دھوکا ہو تو ایسا ہو

جاتے جاتے ایک درخواست اہلِ وطن سے کہ چیلنج سے بھرپور عید پر پیاروں، ہمسایوں اور عزیزوں و مریضوں کو وبائی ایس او پیز کے ساتھ عید مبارک ضرور کہنا ہے اور دریافت کرنا ہے اُن سفید پوشوں کو جو مدد کے مستحق ہیں۔ آپ کی دلی قربتیں اور محبتیں اس سماجی دوری میں قوتِ مدافعت سے کم نہیں سو خوشیوں کی ذخیرہ اندوزی نہیں بانٹ چاہئے، یہ بھی ہارڈ امیونٹی ہے!

تازہ ترین