• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پوری انسانی برادری کم و بیش پچھلے چھ ماہ سے کورونا وائرس کی شکل میں جس موذی وبا سے دوچار ہے اور اس نے دنیا بھر میں لاک ڈاؤن کی شکل میں کاروبار زندگی کو جس بری طرح متاثر کیا ہے، تاریخ میں اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ عالمی ادارہ صحت(ڈبلیو ایچ او) کے مطابق جو چیز معاملے کو مزید سنگین بنارہی ہے وہ اُن ملکوں میں وبا کی دوسری لہر کی آمد کا خطرہ ہے جہاں سے بظاہر یہ وائرس رخصت ہوتا نظر آرہا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کی ہنگامی صورت حال کے سربراہ ڈاکٹر مائیک ریان نے گزشتہ روز ایک آن لائن بریفنگ میں بتایا ہے کہ وسطی و جنوبی امریکہ نیز جنوبی ایشیا اور افریقہ میں کیس اب بھی بڑھ رہے ہیں جبکہ شمالی امریکہ اور کئی یورپی ملکوں میں کیسوں کی تعداد میں کمی واقع ہورہی ہے تاہم ان میںسال رواں کے آخر تک وباء کی دوسری لہر آسکتی ہے کیونکہ وبائی امراض اکثر لہروں کی صورت میں آتے ہیں۔ ڈاکٹر مائیک ریان نے کئی ملکوں میں لاک ڈاؤن میں نرمی کے تناظر میں سماجی فاصلے اور نگرانی کی جامع حکمت عملی کو جاری رکھنے پر زور دیا تاکہ صورتحال کو قابو میں رکھا جا سکے۔ عالمی ادارۂ صحت کے اس انتباہ کی روشنی میں پاکستان کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ملک بھر میں احتیاطی تدابیر کے معاملے میں سخت لاپروائی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے اور عید کے موقع پر کی جانے والی نرمی کے دوران شاپنگ سینٹروں اور دیگر پبلک مقامات پر خاص طور پر اس ضمن میں کی گئی ہدایات کو بری طرح نظر انداز کیا گیا۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزانے اسی صورت حال کی بناء پرقوم کو متنبہ کیا ہے کہ پاکستا ن میں وبا اگرچہ اب تک بےقابو نہیں ہوئی اور ہمارے ہاں سنگین کیسوں اور جانی نقصان کی شرح دوسرے بہت سے ملکوں سے خاصی کم ہے لیکن احتیاطی اقدامات میں غفلت برتی گئی تو حالات بہت بگڑ سکتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اگر لوگوں کا یہی رویہ برقرار رہا تو ملک میں دوبارہ لاک ڈاؤن کا فیصلہ کرنا پڑے گا جس سے ہماری زندگی بھی مشکل ہوگی اور قومی معیشت بھی مزید زبوں حالی کا شکار ہوگی۔ بلاشبہ کورونا کی طرح لاک ڈاؤن کے نقصانات بھی بےپناہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور ان کے کئی قریبی ساتھی شروع ہی سے لاک ڈاؤن کی حکمت عملی سے حتیٰ الامکان بچنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ پاکستان جیسے ملکوں کے لیے جو پہلے ہی سنگین معاشی مشکلات میں مبتلا ہیں، طویل مدت تک لاک ڈاؤن کا راستہ اپنائے رکھنا فی الحقیقت ممکن ہی نہیں۔ لہٰذا ہر سطح پر تمام کاروباری مراکز، دفاتر، کارخانوں، مساجد اور ٹرانسپورٹ وغیرہ میں ماسک، فاصلے اورسینی ٹائزر جیسی احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد کا یقینی بنایا جانا ہی درپیش صورت حال کا ممکنہ اور قابلِ عمل حل ہے۔ علاوہ ازیں ہمارے حکمت کاروں کو یہ حقیقت بھی ملحوظ رکھنی چاہیے کہ وبا کو شکست دینے میں انسان کاقدرتی مدافعتی نظام سب سے مؤثر کردار ادا کرتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اہل مغرب کے مقابلے میں ایشیائی اور افریقی معاشروں میں کورونا کی تباہ کاریوںکے واضح طور پر کم ہونے کا اصل سبب یہی ہے۔ لہٰذا ہمارے طبی ماہرین کی جانب سے اہلِ وطن کو ان تدابیر سے بخوبی آگاہ کیا جانا چاہیے جنہیں اختیار کرکے ایک شخص موجودہ وبا کے مقابلے میں اپنی مدافعتی صلاحیت بڑھا سکتا ہے۔ کورونا ہی نہیں ٹی بی، ایڈز، ٹائیفائڈ، فلو کی مختلف اقسام اور بہت سے دیگر امراض کے وائرس ہمہ وقت ماحول میں موجود رہتے ہیں لیکن یہ انسان کا مدافعتی نظام ہی ہے جو کروڑوں انسانوںکو ان سے محفوظ رکھتا ہے‘ پاکستان اور دوسرے ایشیائی ملکوں میں کورونا اسی وجہ سے مغربی ملکوں کی طرح نہیں پھیلا کہ وسائل کی کمی کے باوجود خدا کے فضل سے یہاں عام آدمی کی مدافعتی صلاحیت بہتر ہے اور اسے مزید بہتر بناکر وبا کا کامیابی سے مقابلہ کیا جا سکتا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ اس جانب بھی پوری توجہ دی جائے۔

تازہ ترین