• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغانستان سے آنے والی مثبت خبریں نشاندہی کررہی ہیں کہ جنگ زدہ ملک کے حالات اب رُخ بدل کر ’’انٹرا افغان ڈائیلاگ‘‘ اور اسکے نتیجے میں پائیدار امن کے امکانات کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ 29فروری کو دوحہ میں جو امریکہ طالبان تاریخی معاہدہ ہوا اس کے تحت طالبان کو افغانستان کے ایک ہزار قیدی اور جواباً کابل حکومت کو پانچ ہزار طالبان قیدی گروپوں کی صورت میں رہا کرنے تھے مگر ابتدا میں کابل حکومت نے طالبان قیدیوں کی رہائی سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ دوحہ معاہدے کی فریق نہیں۔ اسکے جواب میں طالبان نے زبانی اور عملی طور پر واضح کیا کہ وہ جنگ بندی فیصلے پر عملدرآمد کے پابند نہیں رہے۔ دوسری جانب افغانستان کے صدارتی انتخابات کا نتیجہ تسلیم کرنے سے عبداللہ عبداللہ کے انکار اور خود کو افغان صدر قرار دینے سے ایک نازک صورتحال پیدا ہو گئی۔ تاہم کرشماتی تبدیلی یہ ہوئی کہ سابق صدر حامدکرزئی کی ثالثی کوششوں کے نتیجے میں 18مئی کو غنی عبداللہ معاہدہ ہوگیا جس کی ایک شق کے تحت ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کی سربراہی میں ہائی کونسل آف گورنمنٹ اور ہائی پیس کونسل قائم ہونی ہے جو طالبان سے مذاکرات کرے گی۔ اس منظرنامے میں عید سے قبل طالبان کی جانب سے تین روزہ جنگ بندی اور صدر اشرف غنی کی طرف سے دوہزار افغان قیدیوں کی رہائی کے اعلانات سامنے آئے۔ 100طالبان قیدی پیر 25مئی کو رہا کر دیے بھی گئے۔ توقع ہے کہ اس عمل سے جنگ بندی مستحکم ہوگی، براہ راست وسیع تر افغان ڈا ئیلاگ کا آغاز ہوگا اور کوئی مستحکم سیاسی ڈھانچہ وجود میں آجائے گا۔ پاکستان سمیت پورے خطے کے لئے یہ بات خوش آئند ہوگی مگر نئی دہلی کے عزائم سےچوکنا رہنا ضروری ہے جو افغانستان میں بدنظمی کی صورتحال کو پاکستان میں مداخلت ودہشت گردی کا ذریعہ بنانے کا عادی رہا ہے۔

تازہ ترین