مسلم لیگ (ن) کی مشکلات کم ہونے کی بجائے ان میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور حکومت مبینہ طور پر انتقامی کارروائیوں کے ذریعے مسلم لیگ (ن) کی مرکزی قیادت کونشانے پر لئے ہوئے ہے۔ میاں شہباز شریف کی لندن سے واپسی کے بعد لگ رہا تھا کہ شاید کوئی ایسی انڈرسٹینڈنگ ہوگئی ہے جس کے نتیجے میں وہ اپنے بیمار بھائی میاں نوازشریف کو چھوڑ کر واپس وطن آگئے ہیں مگر گزرتے ہوئے وقت نے ثابت کیا ہے کہ حکومت کی طرف سے شاید ایسی کوئی ڈیل یا ڈھیل نہیں دی گئی اور اب بظاہر میاں شہباز شریف کے خلاف نیب کیسز سے لگ رہا ہے کہ اب انہیںلندن جانے سے بھی روک دیا جائےگا۔ ایسے میں اگر میاں نواز شریف کے علاج کے لئے آپریشن یا کوئی دیگر پروسیجر شروع کیا جاتا ہے تو اس موقع پر میاں شہباز شریف شاید موجود نہ ہو سکیں۔
جس سے مسلم لیگ (ن) کو یقیناً بڑا دھچکا لگ سکتا ہے۔ شوگر سیکنڈل کی سامنے آنے والی رپورٹ سے ایک طرف تو پی ٹی آئی کو یقیناً پوائنٹ سکورنگ کا موقع ملے گا اور وہ یہ دعویٰ کر سکتی ہے کہ عمران خان نے کسی بھی سکینڈل کی رپورٹ کو پبلک کرکے ایک نئی روایت قائم کی ہے مگر اس کے دور رس اثرات بھی ہوسکتے ہیں جو یقیناً پی ٹی آئی کے لئے خوش آئند نہیں ہوںگے۔ شوگر سکینڈل کی رپورٹ کی روشنی میں اگر جہانگیر ترین اور خسرو بختیار کی فیملی پر ہاتھ ڈالا جاتا ہے اور اس کے خلاف اگر کوئی بڑی کارروائی کی جاتی ہے تو روایتی پاکستانی سیاست کے مطابق اس سے پی ٹی آئی کی حکومت کے لئے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ اس رپورٹ کی روشنی میں حکومتی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کے رہنما وا سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی کے صاحبزادے مونس الٰہی کا نام بھی اس شوگر سکینڈل سے استفادہ کرنے والوں میں شامل ہے۔ اگر وزیراعظم عمران خان اس رپورٹ میں ذمہ دار ٹھہرائے جانے والوں کے خلاف کوئی سنجیدہ کارروائی کرتے ہیںتو پھر مسلم لیگ (ق) اور پی ٹی آئی کے درمیان فاصلے بڑھ سکتے ہیں جنہیں آسانی کے ساتھ کم نہیں کیا جاسکتا ہے۔
سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والے پنڈت کہتے ہیں کہ ایسے حالات میں برف پگھل سکتی ہے اور مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ق) میں فاصلے کم بھی ہوسکتے ہیں جو یقیناً پی ٹی آئی کے لئے شدید خطرے کا سبب ہوسکتا ہے۔ لہٰذا شوگر سکینڈل کی رپورٹ میں دی گی سفارشات پر عملدرآمد کسی طرح بھی اتنا آسان نہیں ہوگا۔ کرونا وائرس نے جہاں ترقی یافتہ ممالک کی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے وہاں پر پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کی معیشت کی بنیادیں ہل گئی ہیں اور تمام تر دعوئوں کے باوجود لاکھوں کی تعداد میں لوگ بےروزگار ہوگئے ہیں اور آئندہ بھی اس تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
حکومت پنجاب کی طرف سے تمام تر دعوئوں کے باوجود عملی طورپر اس بڑھتی ہوئی بے روزگاری کو کم کرنے کی بجائے اضافے کے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ حکومت کی ناقص پالیسیوں کا یہ عالم ہے کہ بظاہر حکومت کی طرف سے یہ اقدام بڑا اچھا نظر آتا ہے کہ حکومت نے پرائیویٹ سکولز میں پانچ ہزار سے زیادہ فیس لینے والے سکولوں میں بچوں کی اپریل اور مئی کی فیس میں 20 فیصد رعایت دی ہے مگر حقیقت میں بڑی فیسیں دینے والے طبقہ کا یہ مسئلہ نہیں ہے۔اگر کرونا کی صورت حال مزید زیادہ دیر تک چلتی ہے تو پھر ان تعلیمی اداروں پرجن کی فیسیں زیادہ ہیں مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔ اصل مسئلہ ان سکولوں اور ان کے ٹیچنگ سٹاف کا ہے جن کی فیسیں پانچ ہزار روپے ماہانہ سے کم ہیں۔
اس طبقہ کے لوگوں کی کرونا کی وجہ سے آمدنی بری طرح سے متاثر ہوئی جس کے باعث وہ سکولوں کی فیسیں ادا نہیں کر رہے اس کے نتیجے میں سکولز عمارتوں کے کرایے اور اساتذہ و دیگر سٹاف کی تنخواہیں نہیں دے پا رہے اور یوں لاکھوں پرائیویٹ ٹیچرز بےروزگار ہوگئے ہیں مگر محکمہ تعلیم اور حکومت کی اس صرف کوئی توجہ نہیں ہے، صرف پرائیویٹ سکولز کو مافیا ثابت کرنے پر زور لگایا جا رہا ہے۔ حکومت کی عدم دلچسپی اور ناقص منصوبہ بندی سےبڑی تعداد میں چھوٹے پرائیویٹ سکولز بند ہوگئے ہیں یا پھر وہ بند ہونے کےقریب ہیں جس سے لاکھوں اساتذہ اور دیگر سٹاف بے روزگار ہو گیا ہے۔
یہاں یہ ذکر کرنے بھی کوئی حرج نہیں ہے کہ محکمہ تعلیم پنجاب کے ایک ذمہ دار کی ہٹ دھرمی اور ضد کی وجہ سے پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے لاکھوں اساتذہ کو پچھلے تین ماہ سے تنخواہیں نہیں دی گئیں اور عید کے موقع پر زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں کیا گیا۔ مذکورہ بالا حکومتی شخصیت پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے معاملہ میں شکایت کنندہ بھی خود ہے، وکیل بھی خود ہے، گواہ بھی خود ہے اور قاضی بھی خود ہے۔
جس سے کسی طور پر بھی انصاف کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن کے پارٹنرز پر الزامات تو لگائے جا رہے ہیںمگر ان کا موقف سننے کو کوئی بھی تیار نہیں ہے۔ انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ حکومت محکمہ تعلیم سے باہر کے سینئر افسران کی ایک کمیٹی بنائے جس کے سامنے پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن اور اس کے پارنٹرز اپنا اپنا موقف پیش کریں اور کمیٹی ہر صورت میں سات دنوں میں اس کیس کا فیصلہ کر دے۔ بااختیار کی ضد کے سامنے سبھی بے بس نظر آتے ہیں۔ اس حوالے سے دو احتجاج بھی ہوچکے ہیں۔ مگر مسائل حل نہ ہونے کے باعث کوئی فیصلہ کن اقدام بھی ہوسکتا ہے۔ لہٰذا وزیر اعلیٰ پنجاب کو اس پر اپنا حقیقی رول ادا کرنا چاہیے۔