• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صاحب بڑی دنیا دیکھی لیکن ایسے منظر کہیں نہ دیکھے۔ کچھ منظر محض تصور ہی میں دیکھ لیے جاتے ہیں، یہ نظارہ تو وہم و گمان کے دریچوں سے بھی نہیں گزرا۔ امریکہ میں جہاں کورونا نے اتنے بڑے، اتنے مالدار ملک کو بے روزگار کردیا ہے، ہم نے ٹی وی پر دیکھا لوگوں کے پاس کھانے کو بھی کچھ نہیں بچا۔ وہ بھوکوں کی لمبی قطاروں میں کھڑے ہیں لیکن ہماری طرف کے بھوکوں کی طرح نہیں۔ وہ بڑی بڑی چمکتی دمکتی کاروں میں بیٹھے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں اور کئی کئی ہاتھ لمبی مخصوص امریکی کاروں کی قطار سانپ کی طرح بل کھاتی دور تک چلی جا رہی ہے۔ لوگ کاروں کے بونٹ خالی کرکے آئے ہیں تاکہ اپنا راشن بھر کر لے جا سکیں۔ یہ منظر دیکھ کر منہ سے یہی تین لفظ نکلے ’خدا کی شان‘۔

سچ ہے، وقت بڑی ہی ظالم شے ہے، کب کیسا پہلو بدلے گا اور کن علاقوں میں کیسے کیسے گُل کھلائے گا، بڑے سے بڑا کمپیوٹر پیش گوئی نہیں کر سکتا۔ امریکہ کہ بہت سے ملک اسی کا دیا کھاتے ہیں، خود ایسا دیوالیہ ہو جائے گا، یقین نہیں آتا۔ ہم کالج میں اقتصادیات پڑھتے تھے۔ اس مضمون میں ایک بار پڑھا کہ امریکہ میں اتنا زیادہ گیہوں پیدا ہوگیا کہ اس زمانے کی ریل گاڑیوں میں کوئلے کی بجائے خشک گیہوں جھونکا گیا یا سمندروں میں پھینکا گیا۔ مقصد یہ نہیں تھا کہ فالتو اناج کو ٹھکانے لگایا جائے بلکہ مسئلہ یہ بھی تھا کہ بازار میں زیادہ گیہوں آگیا تو بقول شخصے ٹکے سیر بھاؤ لگے گا، یعنی کاشتکار کے فاقے ہو جائیں گے۔ اُس زمانے میں زرِ تلافی دینے کا چلن نہیں تھا جسے اب عرف عام میں ’سبسڈی‘ کہنے لگے ہیں۔

امریکی سرزمین افراط کی سرزمین کہلاتی ہے۔ کیا قدرت کی دین ہے کہ وہاں ہر شے کثرت سے پیدا ہوتی ہے۔ اتنا بڑا ملک ہے کہ دنیا کے نقشے پر دیکھا جائے تو بے شمار علاقے اسی طول البلد پر واقع ہیں جو امریکہ سے بھی گزرتا ہے۔ طول البلد اور ارض البلد نقشے پر کھینچی جانے والی وہ لکیریں ہیں جن کی مدد سے بیان کیا جاتا ہے کہ کون سا مقام دنیا کے نقشے پر کہاں واقع ہے۔ اس کی دلچسپ مثال یہ ہے کہ امریکیوں کو پستہ اگانے کا خیال آیا۔ انہوں نے دیکھا کہ بہترین پستہ ایران میں ہوتا ہے۔ انہوں نے جھٹ حساب لگا کر اپنی سرزمین پر وہ علاقہ طے کرلیا جو بالکل ان ہی لکیروں پر واقع ہے جو ایران سے بھی گزرتی ہیں۔ ان کا قیاس تھا اور شاید ٹھیک تھا کہ اس جگہ کی آب و ہوا اور ممکن ہے مٹی بھی وہی ہونی چاہیے جو ایران کی ہے۔ یہی ہوا۔ امریکہ میں پستہ پیدا ہونے لگا اور اس میں انہوں نے اپنی سائنس کا تڑکا بھی لگا دیا اور اس طرح بڑا اور خوش شکل پستہ پیدا کر لیا جو اب دنیا بھر کو بھیجا جاتا ہے۔

ایسے ملک کو کیسے بحران کا سامنا ہے، عقل حیران ہے۔ ایک لاکھ افراد مر چکے ہیں۔ پورے امریکہ میں لاک ڈاؤن ہے۔ پورا ملک بند ہے، سارا کاروبار ٹھپ ہے۔ ملک کی آبادی کے بڑے حصے نے بے روزگاروں کی فہرست میں اپنے نام لکھوا دیے ہیں۔ اب ان کا خرچا پانی سرکار کے ذمہ ہے۔ مگر جو ان لوگوں کو جانتا ہے وہ تسلیم کرے گا کہ عجیب قوم ہے۔ دیکھ لینا لوٹ پوٹ کر اٹھ کھڑی ہوگی۔ دوسری عالمی جنگ میں تباہ ہونے والے ملکوں کی مثال سامنے ہے۔ کھنڈر بن گئے تھے۔ پھر کیا ہوا۔ اسی راکھ میں نئی دنیا نمودار ہو گئی۔

اس کا راز ڈسپلن میں چھپا ہے، نظم و ضبط، اصول پسندی اور قانون کا احترام۔ ان چیزوں پر کوئی سمجھوتا نہیں ہو سکتا۔ ان دنوں برطانیہ والے اسی اصول پسندی کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔ میڈیا پر اس کا قصہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ ہوا یوں ہے کہ برطانیہ کے وزیر اعظم کے چوٹی کے مشیر ڈومینیک کمنگز کی جو شامت آئی، وہ سارے اصول اور ضابطے بھول کر اپنے گھر سے نکل کھڑے ہوئے اور کار میں بیٹھ کر دو سو ساٹھ میل دور اپنے آبائی گھر چلے گئے۔ پریس کو معلوم ہوگیا۔ بس غضب ہو گیا۔ جب گھر سے نکلنا منع ہے اور آپ زیادہ سے زیادہ کیمسٹ کی دکان سے درد کی گولیاں لے سکتے ہیں، یہ کیسے ممکن ہوا کہ وزیراعظم کا اعلیٰ ترین مشیر گھر سے نکل گیا اور طویل سفر کرکے واپس آیا۔ اس پر ایک شور مچا۔ میڈیا نے ان صاحب کو آڑے ہاتھوں لیا۔ وہ بھی صفائیاں پیش کرتے رہے یہاں تک کہ وزیراعظم بھی اپنا منصب داؤ پر لگا کر اپنے مشیر کے سیر سپاٹے کو جائز اور درست قرار دینے لگے۔ جس وقت یہ تحریر لکھی جا رہی ہے، استعفے کا مطالبہ جاری ہے اور اس کی اشاعت تک ممکن ہے مشیر صاحب رختِ سفر باندھ چکے ہوں۔ اسی دوران ایک جونیئر وزیر نے ان کی ہٹ دھرمی پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کیلئے استعفیٰ دے دیا ہے اور یہ سلسلہ کون جانے کہاں تک چلے گا۔ اسی دوران یورپی ملکوں میں کورونا کا زور ٹوٹ رہا ہے اور لاک ڈاؤن کی پابندیاں نرم ہو رہی ہیں لیکن ماہرین کو اندیشہ ہے کہ یہ اقدام درست نہیں۔ کورونا کی دوسری لہر آنے کی بات عام ہو رہی ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ ننھے بچوں کو اسکول بھیجنے یا نہ بھیجنے کا ہے۔ سائنسداں کہتے ہیں کہ اسکول کھول دیے جائیں مگر اس با ر مائیں اڑ گئی ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ بچوں کو اسکول بھیجنے کے لئے فضا ابھی سازگار نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی کورونا کا علاج دریافت کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ یورپ میں اور پاکستان میں بھی پلازما کے ذریعے علاج کامیاب رہا ہے اور جو مریض صحت یاب ہو کر گئے ہیں ان کے خون سے پلازما الگ کرکے مریضوں کو دیا جا رہا ہے جس کے اچھے نتیجے نکل رہے ہیں۔ افریقہ میں ایبولا کی جو وبا پھیلی تھی اس پر قابو پا لیا گیا، یقین ہے کہ کورونا کو بھی پچھاڑ دیا جائے گا مگر اس وقت تک یہ مرض کتنی جانیں نگل چکا ہوگا، کچھ کہنا مشکل ہے۔ لیکن ایک بات طے ہے۔ وہ خیال بالکل غلط نکلا کہ کورونا چاند رات تک رہے گا اور نمازِ عید تمام ہونے تک ختم ہو جائے گا۔ لوگ آج بھی مر رہے ہیں اور پہلے سے زیادہ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین