• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مشرقی افغانستان میں طالبان کے حملے میں 14افغان فوجیوں کی ہلاکت امن عمل کے تناظر میں گزشتہ ہفتے کے دوران ہونے والی دو طرفہ مثبت پیش رفت پر ایک ضربِ کاری ہے جس کے تحت طالبان کے جنگ بندی کے تیسرے اور آخری روز اس میں توسیع کے مطالبے کے ساتھ افغان حکام نے 900مزید طالبان قیدی رہا کیے تھے۔ کشیدگی میں یہ وقفہ 19سال کی طویل جنگ بندی میں دوسری مرتبہ آیا تھا۔ طالبان نے پکتیا صوبے میں 14افغان فوجیوں کی ہلاکت کے اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اسے دفاعی حملہ قرار دیا ہے۔ یہ صورتحال عالمی برادری کی امن کوششوں کے لیے دھچکا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ 11مئی کو افغان حکومت نے طالبان قیدیوں کی رہائی کا عمل یہ کہتے ہوئے معطل کر دیا تھا کہ طالبان لازمی طور پر پہلے رہا کئے جانے والے افغان سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں کی تعداد کو 200تک لے آئیں، اس حوالے سے حکومت کا دعویٰ تھا کہ اب تک طالبان نے اس کے صرف 105قیدی رہا کیے ہیں گویا ان تمام حالات و واقعات کے پیچھے فریقین کی طرف سے ایک دوسرے کے قیدیوں کی رہائی کا عمل جلد از جلد مکمل کرنے کا دبائو ہے اور متذکرہ واقعہ سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان حالات میں خانہ جنگی میں پھر سے شدت آ سکتی ہے جس سے افغان سرزمین پر موجود امن دشمن عناصر کو جلتی پر تیل ڈالنے کا موقع مل سکتا ہے۔ وہاں نیٹو فوج کی آڑ میں بھارتی خفیہ ادارے جس طرح سرگرم ہیں اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں۔ طویل خانہ جنگی کے بعد افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کا جو موقع ملا ہے افغان حکومت کو اسے ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہئے۔ ضروری ہوگا کہ دونوں فریق امن معاہدہ کی پاسداری کرتے ہوئے قیدیوں کی رہائی کا عمل بروقت مکمل کر لیں۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین