قوم کو مبارک ہو کہ وہ ’’چاندوں‘‘ میں خودکفیل ہو کر دنیا بھر میں نمبر ون پوزیشن پر آکھڑی ہوئی ہے اور اس عزت و تکریم میں ملک کے نامور علمائے دین‘ پشاور کے مفتی شہاب الدین پوپلزئی اور مانسہرہ کے مفتی محمد منیب الرحمٰن شامل ہیں لیکن بین الاقوامی سطح پر اس اہم ترین معاملہ کو ایک نئی جہت دینے میں یقیناً سائنس و ٹیکنالوجی کے دبنگ وزیر باتدبیر جہلم کے فواد چوہدری کا حصہ اور کوششیں سب سے زیادہ ہیں کیونکہ انہوں نے دلائل اور ثبوتوں سے بہت سے پردے ہٹانے اور نقاب الٹنے کی کوشش کی ہے،
ان کی یہ دلیل صائب لگتی ہے کہ مذہبی لحاظ سے ہم آزاد مملکت ہیں، پاکستان میں مذہبی انفورسمنٹ نہیں اور مذہبی آزادی یہی ہے کہ پاکستان کے عوام اپنے اپنے مذہبی تہوار اپنی مرضی سے منائیں۔
فواد چوہدری نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کی حکومت کے فیصلے ازخود قانون ہیں جن کا احترام کرنا بھی ضروری ہے، جبکہ حکومت کے ہی ایک دوسرے وزیر مذہبی امور نورالحق قادری کی نظر میں چاند دیکھنے کی قانونی حیثیت مرکزی رویت ہلال کمیٹی کی ہے جس کے چیئرمین مفتی منیب الرحمٰن ہیں اور چاند دیکھنا ایک سائنسی نہیں شرعی معاملہ ہے۔ مفتی منیب الرحمٰن صاحب نے تو فواد چوہدری پر مداخلت دین کا الزام بھی لگا دیا اور ساتھ ہی ساتھ وہ سوال بھی پوچھ لیا جو آج تک ایک عام آدمی سمجھتا تھا کہ فقط روز قیامت ہی پوچھے جانے ہیں۔
حافظ احتشام الٰہی ظہیر صاحب نے بھی اپنی منطق اس سلسلہ میں پیش کی ہے ان کے مطابق آبزرویٹری سے چاند دیکھنا یا سالانہ کیلنڈر بنانا مذہب کے خلاف ہے۔ حافظ صاحب کا کہنا ہے کہ پاکستان پل، ڈیم، اسپتال اور موٹر وے بنانے کیلئے نہیں بنا بلکہ اسلامی اصولوں کے مطابق پریکٹس کرنے کیلئے بنایا گیا تھا۔
اب یقیناً یہ ایک طویل بحث ہے کہ چاند کی رویت کیلئے سائنس سے مدد لینے میں اسلامی اصولوں کی خلاف وزی کیسے ہوتی ہے۔
پاکستان کے ایک نامور عالم دین جاوید احمد غامدی نے بھی قرآن و حدیث کے اپنے علم کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی رائے دی ہے کہ چاند کی تاریخوں کا کیلنڈر ضرور بننا چاہئے کیونکہ سائنس کی بڑھتی ہوئی ترقی کے ساتھ اب ایسا کرنا ممکن ہو چکا ہے لہٰذا جب ہم بے شمار سائنسی ایجادات سے روز مرہ فائدہ اٹھا رہے ہیں حتیٰ کہ کئی ایک مذہبی معاملات میں بھی تو پھر کیلنڈر بنانے میں کیا مضائقہ ہے اور پھر جب ہم گھڑی دیکھ کر نمازیں ادا کرتے ہیں تو کیلنڈر کے ذریعہ عیدین کیوں نہیں منا سکتے؟
جناب غامدی کے مطابق چاند کا معاملہ آج کی دنیا میں خالص علم فلکیات کا مسئلہ ہے جسے ہمارے بعض علماء نے مذہبی معاملہ بنا دیا ہے اور قوم کو خواہ مخواہ اس قسم کے معاملات میں تقسیم کرکے رکھ دیا ہے، جاوید احمد غامدی کا کہنا ہے کہ ’’اپنی آنکھ سے چاند دیکھنے‘‘ کی حدیث کی بعض علما نے غلط تشریح کی ہے، جناب فواد چوہدری نے گزشتہ سال کی طرح حالیہ عیدالفطر سے چند روز قبل کہا تھا کہ میری وزارت کے تحت تیار کردہ قمری کیلنڈر کے مطابق پاکستان میں عید 24مئی کو ہو گی چنانچہ ان کے اس اعلان کے بعد سوشل میڈیا پر ایک لفظی جنگ شروع ہو گئی۔
سو اب صورتحال یوں ہے کہ ایک چاند مفتی پوپلزئی کو عام طور پر سب سے پہلے نظر آتا ہے اور پھر مفتی منیب الرحمٰن کو دکھائی دیتا ہے، اب یہ تیسرا چاند جناب فواد چوہدری کا ہے جو وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے مدارالمہام ہیں چنانچہ فیصلہ پاکستان کے عوام نے کرنا ہے کہ انہیں کون سا ’’چاند بہتر‘‘ لگتا ہے کیونکہ صورتحال ایسی ہے کہ منیب الرحمٰن ایک ایسی دوربین سے چاند دیکھتے ہیں جو 50سال پرانی ہے۔
شہاب الدین پوپلزئی دوربین وغیرہ کے تکلفات میں پڑتے ہی نہیں بلکہ دور دراز کی شہادتوں پر ہلال کا اعلان فرماتے ہیں جبکہ فواد چوہدری ان دونوں علمائے کرام کو دعوت دے رہے ہیں کہ وہ ’’چاند کی سائنس دیکھنے‘‘ ان کی وزارت کے دفتر آئیں اور دیکھیں کہ چاند گردش کیسے کرتا ہے، فواد چوہدری نے ایک ایپ بھی اس ضمن میں بنا دی ہے کہ لوگ خود چاند کاتعین کر سکیں، ان کے خیال میں مروجہ طریقے سے چاند دیکھنے پر 36سے 40لاکھ روپے خرچ ہوتا ہے جو حکومتی خزانے پر بوجھ ہے۔
دراصل فواد چوہدری ایک روایتی اور فرسودہ طریقے کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس کام میں انہیں ایک مضبوط اپوزیشن کا سامنا ہے وہ ایسے افراد کے بھی ’’نرغے‘‘ میں ہیں جو سمجھتے ہیں کہ روشن ضمیری کیلئے انتہا پسندی بھی ضروری ہے، وزیر صاحب برسوں سے چلے آ رہے ایک اسٹیٹس کو کو توڑنا چاہتے ہیں وہ جناب منیب الرحمٰن کی دوربین کے بجائے ہبل دوربین سے مدد لینا چاہتے ہیں۔
یہ دور بین کوئی عام دور بین نہیں امریکی خلائی ادارے ’’ناسا‘‘ نے 1990ء میں اسے خلا میں بھیجا تھا۔ یہ زمین کے مدار میں سفر کرتی ہے ایک گھنٹے میں 27300کلو میٹر کے سفر میں وہ ستاروں کو ٹوٹتے اور بنتے بھی دیکھتی ہے اور ایسی کہکشائوں کو بھی جو زمین سے کھربوں میل دور ہیں اور ’’ہبل‘‘ کی مدد سے وہ چاند بھی نظر آئے جو پہلے دریافت ہی نہیں ہوئے تھے۔ گو کہ اس سال اتفاق سے عید ایک ہی روز ہو گئی لیکن کیا ایسا ممکن نہیں کہ ریاست ایک ایسا لائحہ عمل مرتب کرے کہ ہر سال چاند کے مسئلہ پر قوم تقسیم نہ ہو۔
ویسے بھی امام شافعیؒ کا ماننا ہے کہ ننگی آنکھ سے چاند دیکھنا ضروری نہیں۔ اب یہ فیصلہ اسلامی نظریاتی کونسل اور ریاست کا ہے کہ انہیں قوم کو کس طرف لے جانا ہے۔ ویسے بھی سائنسی اعتبار سے اس کائنات کے لاکھوں چاند ہو سکتے ہیں لیکن ہماری زمین کا تو یہی ایک چاند ہے ۔
اب تو یوں ہے کہ فواد چوہدری اگر اسی جرأت رندانہ کے ساتھ پاکستان کا یہ معاملہ حل کرا دیں تو ہم 80لاکھ اوورسیز پاکستانی بھی ہر سال اس کثیر الثقافتی اور کثیر المذہبی کمیونٹیز کے درمیان جگ ہنسائی سے بچ سکتے ہیں ہم اپنے بچوں کے اسکولوں سے ایک ہی دن چھٹی کیلئے کہہ سکتے ہیں، یہی حال ملازمتوں کی جگہوں کا ہے۔ ہندو، سکھ، عیسائیوں اور دیگر کا سوال ہم سے یہ ہوتا ہے کہ سائنسی ترقی کے باوجود آپ لوگ چاند کے معاملہ پر انتشار و خلفشار کا شکار کیوں ہیں۔
اب فواد چوہدری کے جو لتے لئے جا رہے ہیں درست ہی لگتے ہیں کیا فواد کا یہ قصور کم ہے کہ وہ اس خطے کے لوگوں کو ہبل دوربین، علم فلکیات اور چاند کیلئے سیاسی کیلنڈر کی باتیں بتانا چاہتے ہیں جن کے کروڑوں بچوں کا ماما آج بھی چاند ہے جو ابھی کل تک مانتے تھے کہ ہماری زمین کو ایک بیل نے اپنے سینگوں پر اٹھایا ہوا ہے اور زلزلہ زمین کو ایک سے دوسرے سینگ پر شفٹ کرنے سے آتا ہے، اور پھر چوہدری صاحب کو اس بوڑھی عورت کے متعلق بھی معلومات ہوں گی جو چاند پر بیٹھ کر چرخہ کات رہی ہے۔