3مہینے پہلے جب ہم سوکر اٹھے تو ایک نئی دنیا نے جنم لیا جس میں نہ ڈزنی لینڈ تھا، نہ پیرس اور لندن کی رنگین شامیں، نہ نیویارک کی ہنگامی زندگی اور انویسٹمنٹ بینکرز کی خوبصورت سوٹ میں میٹنگز کیلئے بھاگ دوڑ، یکسر دیوار چین میں لوگوں کی عدم دلچسپی، جاگتی شاموں کے بڑے شہروں کا جلد سو جانا اور سب سے اہم خانہ کعبہ کا طواف رک جانا تھا۔ ان سب نے دنیا بدل دی۔ پیار اور گلے لگنا جو پہلے گرمجوشی کا اظہار سمجھا جاتا تھا، اب جراثیم منتقلی کا سبب کہا جارہا ہے۔ والدین، اہل خانہ اور دوستوں سے دور رہنا اب ان سے محبت کا ثبوت ہے جبکہ کورونا وائرس سے مرنے والوں کی تدفین میں قریبی رشتے دار بھی شرکت سے گریز کررہے ہیں جس سے ہمیں اس بات کا احساس ہوا کہ دولت، شہرت اور خوبصورتی، یہ سب کچھ بے معنی ہیں اور آپ کو وہ طاقت نہیں فراہم کرسکتے جس کیلئے آپ زندگی کی جنگ لڑرہے ہیں۔ دنیا تو اِسی طرح قائم ہے لیکن انسانوں کو قید کردیا گیا ہے جس سے یہ واضح پیغام ملتا ہے کہ دنیا میں زمین، ہوا، پانی، آسمان اور باقی اشیاکو ہماری ضرورت نہیں۔ دنیا کا کہنا ہے کہ زندگی کی جنگ جیتنے کی صورت میں آپ اب آقا نہیںبلکہ ہمارے مہمان ہوں گے۔ دنیا کی ترجیحات میں یکسر تبدیلیاں آئی ہیں، لوگوں کا فلسفہ حیات بدل گیا ہے اور لوگوں کو احساس ہو گیا ہے کہ نئی ماڈل کی گاڑی، عید پر نئے کپڑے، جدید ماڈل کا فون اور 20ہزار ڈالر کی نئی اسپورٹس Daytona رولیکس گھڑی جس کی ڈیلیوری کی مدت 5سال ہے، اب اُن کیلئے کوئی کشش اور اہمیت نہیں رکھتی۔ چند ہفتوں میں کورونا وائرس کی وجہ سے عالمی معیشت کو 4کھرب ڈالر یعنی 683کھرب روپے کا نقصان ہوا ہے، صنعتیں، ایئرلائنز بند اور معاشی سرگرمیوں کے سکڑنے سے ایک وقت تیل کی قیمت صفر ہو گئی۔ ملکی معیشتوں کو سنبھالنے کیلئے ترقی یافتہ ممالک کے مرکزی بینکوں نے اپنی شرح سود منفی کردی لیکن اس کے باوجود وہ ملکی معیشت میں کوئی بہتری نہ لا سکے۔ غریب ملکوں کے علاوہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی بیروزگاری کا طوفان امنڈ آیا ہے، امریکہ میں مارچ میں بیروزگاری کے اعداد و شمار 4.4فیصد بتائے گئے ہیں جبکہ فروری میں یہ 3.5فیصد تھے۔ دنیا کی بہت بڑی ریٹیل چین H&Mجس کے دنیا میں 5ہزار سے زائد اسٹورز ہیں، نے اپنے اسٹورز کے مالکان کو کرایہ معاف کرنے کی درخواست کی ہے نہیں تو وہ اسٹورز خالی کردیں گے جبکہ امریکی معروف چین JC Pennyنے بینک کرپسی فائل کردی ہے۔ لندن سے سوشل میڈیا پر موصول ہونے والی ایک وڈیو میں لندن کے سب سے بڑے ڈپارٹمنٹل اسٹور Harrods جہاں دنیا کے مہنگے ترین نامور برانڈز کی مصنوعات پر خریداروں کا رش رہتا تھا، آج تمام برانڈز کے شو کیسز لوٹ مار کے خوف سے سے ہٹادیے گئے ہیں۔ وڈیو شیئر کرنے والی سیلز گرل کا کہنا تھا کہ ’’میں نے زندگی میں کبھی اس صورتحال کا تصور بھی نہیں کیا تھا لیکن یہ حقیقت ہے‘‘۔آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتحال کے منفی اثرات طویل مدت تک رہنے کی پیشگوئی کی ہے۔ دنیا کی 3بڑی معیشتوں میں امریکہ کی مجموعی جی ڈی پی 21.2کھرب ڈالر ہے جو دنیا کی جی ڈی پی کا 23.6فیصد ہے جبکہ یورپ کی جی ڈی پی 20کھرب ڈالر ہے جو دنیا کی جی ڈی پی کا 22فیصد ہے۔ چین کی جی ڈی پی 14.3کھرب ڈالر ہے جو دنیا کی جی ڈی پی کا 15.5فیصد ہے۔ دنیا کی مجموعی جی ڈی پی 90کھرب ڈالر ہے جس میں کورونا وائرس کی وجہ سے فروری اور مارچ 2020میں گلوبل جی ڈی پی میں 3.2 کھرب ڈالر کی کمی ہوچکی ہے۔کورونا وائرس کے باعث دنیا کی اسٹاک مارکیٹوں کو اب تک دگنا یعنی 6.4کھرب ڈالر نقصان ہو چکا ہے۔ دنیا کی نامور کمپیوٹر کمپنی ایپل کو دنیا بھر میں اسٹورز اور پروڈکشن بند ہونے کی وجہ سے یومیہ ایک ارب ڈالر کا نقصان ہورہا ہے۔ دنیا بھر کی ایئرلائنز اپنے آپریشنز بند ہوجانے کی وجہ سے شدید مالی بحران کا شکار ہیں۔ صرف ایشیا میں ایئرلائنز کو گرائونڈ ہوجانے کی وجہ سے اب تک 129 ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے اور ایئرلائنوں کی بینکوں کو جہازوں کی لیز کی ادائیگی نہ کرنے کی وجہ سے کئی ایئرلائنز کو دیوالیہ ہونے کا سامنا ہے۔
معاشی پنڈتوں کی پیشگوئی ہے کہ اگر کورونا وائرس پر جلد قابو نہ پایا گیا تو دنیا میں کساد بازاری اور معاشی بحران اکتوبر 1929اور 2008کے عالمی مالی بحران سے کئی گنا زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے جس کا پاکستان سمیت بے شمار کمزور معیشت رکھنے والے ممالک متحمل نہیں ہوسکتے۔میں نے کل وزیراعلیٰ سندھ اور اُن کے وزراء کے ساتھ ایک خصوصی میٹنگ جس میں میرے ہمراہ ممتاز بزنس لیڈرز اور کراچی چیمبر کے صدر نے بھی شرکت کی، میں وزیراعلیٰ سے پوچھا کہ کیا یہ صحیح ہے کہ آغا خان اور کراچی کے دیگر اسپتالوں میں کورونا کے مریضوں کیلئے بیڈ دستیاب نہیں؟ وزیراعلیٰ کا جواب ’’ہاں‘‘ تھا حالانکہ مجھ سمیت میٹنگ میں شریک لیڈرز نے جمعہ اور ہفتہ کو لاک ڈائون ختم کرکے کاروباری سرگرمیاں 4بجے کے بجائے 8بجے تک جاری رکھنے کا مطالبہ کیا لیکن اگر ہم نے کورونا وائرس کی پابندیوں کو سنجیدگی سے نہ لیا تو اب ہمارے پاس اسپتالوں میں کورونا مریضوں کیلئے نہ بیڈ دستیاب ہیں اور نہ وینٹی لیٹر۔ خدارا کورونا کی حقیقت کو تسلیم کریں اور ایس او پیز پر عمل کریں۔