• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک شہزادے کو پرندے پالنے کا شوق تھا۔ مختلف رنگا رنگ اور خوش آواز پرندے اس کے باغ کی زینت تھے۔ شہزادہ بیمار ہوا۔ شاہی نجومی نے فال نکالا۔ معلوم ہوا پرندوں کی بددُعا لگی ہے۔ تمام پرندوں کو آزاد کیا۔ ایک خوش گلو بلبل جو سات زبانوں میں نغمہ سرائی کا فن جانتی تھی، بدستور قید رہی۔ شہزادے کو اس کی مفارقت گوارا نہیں تھی۔ ایک شاعر نے یہ منظر دیکھا تو بے اختیار بول پڑا ’’تمہاری قابلیت ہی تمہاری دشمن بن گئی ہے‘‘۔ فاٹا سے تعلق رکھنے والے پارلیمنٹیرینز سے ایک مدت سے میرا واسطہ ہے۔ اُن میں سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے بھی شامل ہیں اور اپنے قبیلہ کے مسلمہ قائد اور آزاد ممبر بھی۔ طاقت کے زور پر منتخب ہونے والے بھی ہیں اور اپنے ووٹرز کے بل بوتے پر ممبر بننے والے بھی۔ منیر خان اورکزئی کو میں نے ان سب میں قد آور پایا۔ کِسی اجلاس میں شامل ہوتے تو جچی تلی گفتگو کرتے۔ مطالبہ پیش کرتے تو اس کے جواز میں ٹھوس دلائل دیتے۔ صدر، وزیراعظم اور گورنر کے سامنے بات کرتے تو بلاجھجک اپنا مافی الضمیر بیان کرتے۔ سیکورٹی ایجنسیوں کی کھل کر تعریف کرتے۔ جہاں اصلاح کی گنجائش ہوتی صاف اشارہ کر دیتے ۔ بیوروکریٹ کے ساتھ بنا کر رکھتے مگر کارکردگی معیاری نہ ہوتی تو تنقید سے بھی گریز نہیں کرتے۔ حکمرانوں کو ایسا بندہ راس نہیں آتا۔ ان کو تو ’’جی حضوریوں‘‘ سے فطری محبّت ہوتی ہے۔ 2003کے الیکشن میں حصّہ لیا۔ کامیابی نے قدم چومے۔ 2008میں دوبارہ کھڑا ہوا۔ حلقے کے لوگوں نے کھل کر اعتماد کیا۔اپنے علاقے میں امن و امان قائم رکھنے کے لئے ہر قوت کا ساتھ دیا۔ یہ بات تخریبی عناصر کو ناگوار گزری۔ خودکش حملہ ہوا۔ سو سے زیادہ لوگ شہید ہوئے، اتنے ہی زخمی مگر منیر خان کو معمولی سا زخم بھی نہیں آیا۔ جان بچانے والا، جان لینے والے سے زیادہ طاقتور ہے۔ حکمِ ’کُن‘ کے مالک نے اپنی قدرت دکھائی۔ دوسرا حملہ 2019میں ہوا۔ سامنے سے پستول کا نشانہ بنایا گیا۔ گولی پستول کے اندر ہی رہ گئی۔

پانچ سال فاٹا پارلیمنٹیرین گروپ کے لیڈر رہے۔ پہلی دفعہ فاٹا سے منتخب اراکین نے ایک ٹیم کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کیا۔ ’’بندگی‘‘ کی خوگر، طاقتوروں کو رہنمائی کی یہ طرز ایک آنکھ بھی نہ بھائی۔ سہم گئے کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ کہیں مہ کامل نہ بن جائے۔ 2013کے الیکشن کا شیڈول آیا۔ منیر اورکزئی پھر امیدوار بنے۔ مختلف ذرائع سے امیدواروں کی مقبولیت کے بارے میں رپورٹس آنا شروع ہوئیںتو منیر اورکزئی کی اکثریت واضح تھی۔ ایک رپورٹ میں یہ خدشہ بھی ظاہر کیا گیا کہ ان کا روایتی مخالف گروپ شاید اس دفعہ اپنے امیدوار کو آخری دنوں میں دستبردار کرا دے۔ ملک بھر میں الیکشن ہوئے۔ فاٹا کے حلقوں فاٹا 43کرم ایجنسی 2میں حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے انتخابات ملتوی کیے گئے۔ جنوبی وزیرستان میں حال ہی میں آپریشن ہوا تھا۔ شمالی وزیرستان میں ضربِ عضب سے پہلے مسلح گروپوں کا ڈی فیکٹوکنٹرول کوئی راز کی بات نہیں تھی۔ اورکزئی ایجنسی کی آبادی کا ایک کثیر حصّہ ہنگو، کوہاٹ کے آئی ڈی پیزکیمپ میں رہ رہا تھا۔ ایک ستم ظریف کے بقول بلوچستان کے چند حلقوں میں ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد انتخابی عملے کی تعداد سے کم رہی۔

ان تمام علاقوں میں حالات الیکشن کے لئے سازگاررہے مگر ملک کے سب سے بڑے قانون ساز ادارے میں کرم ایجنسی سے تعلق رکھنے والے قبائل اپنی نمائندگی سے محروم رہ گئے۔کامیابی کے عادی کامیاب رہے۔ فاٹا کے پارلیمنٹیرین تین گروپوں میں تقسیم ہو گئے۔ کبھی کبھی چار اکائیاں بھی بنیں۔فاٹا اصلاحات۔ FCRکے متبادل قوانین۔ جنگ سے تباہ حال علاقوں کی تعمیر نو، خود انحصاری کی بنیاد پر نئے معاشی ڈھانچے کی تشکیل، نئے سماجی عمرانی معاہدے کی ضرورت۔ افسوس اپنی ’انا‘ کے دائرے میں محصور ان شاہین صفت قبائل کے نمائندے منیر اورکزئی کی غیرموجودگی میں اپنے علاقوں کو اجتماعی قیادت نہ دے سکے۔ آج فاٹا کے سترہ پارلیمنٹیرین کےتین گروپ ہیں۔ ان کا ہراجلاس نشستند، گفتند و برخاستند کے مرحلے سے آگے کبھی نہ بڑھ سکا۔ میرا ان سے کئی معاملوں پر اختلاف تھا مگر باہمی احترام کا تعلق ہمیشہ قائم رہا۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ وہ کبھی اپنے ذاتی کام کے لئے میرے پاس آئے ہوں۔ پانچ سال گزر گئے۔ فاٹا کے پارلیمنٹیرین ایک پلیٹ فارم پر نہیں آ سکےکہ ’خوئے دلنوازی‘ کی فطری قابلیت کا حامل ان کا ’میرِ کارواں‘ ان کے درمیان موجود نہیں تھا۔

یہ مضون میں نے اپنی یاد داشتوں پر مبنی زیر طبع کتاب کے لئے لکھا تھا۔ آج صبح خبر ملی کہ منیر خان حرکت قلب بند ہونے سے وفات پا گئے۔

(صاحبِ تحریر سابق ایڈیشنل چیف سیکرٹری فاٹا ہیں)

تازہ ترین