کوئی دانشور اپنی تخلیقات کی تکمیل کے لئے صبح سویرے سمندر کا رخ کرتا تھا اُس کی عادت تھی کہ کام کا آغاز کرنے سے پہلے وہ ساحل پر چہل قدمی کیا کرتا تھا۔ ایک روز وہ اپنی اسی عادت میں مشغول تھا کہ اُسے کچھ دور کنارے پر ایک انسانی ہیولا کسی رقاص کی مانند حرکت کرتا دکھائی دیا۔ وہ متجسس ہوا کہ یہ کون ہے جو دن کا آغاز رقص سے کرتا ہے۔ جب دانشور اُس کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ وہ ایک نوجوان ہے جو رقص نہیں کررہا تھا بلکہ ساحل پر جھک کر کوئی شے اُٹھاتا اور پھر اُسے دور سمندر میں پھینک دیتا۔ دانشمند اُس نوجوان کے پاس پہنچا اور صبح بخیر کہنے کے بعد اُس سے دریافت کیا کہ وہ کیا کررہا ہے۔ نوجوان نے قدرے توقف کے بعد نظریں اُٹھا کر دانش مند کی جانب دیکھا اور بولا ”ستارہ مچھلی (Star Fish) کو سمندر میں پھینک رہا ہوں“۔ میں سمجھا نہیں۔ تم ستارہ مچھلی کو کیوں سمندر میں پھینک رہے ہو۔ دانشور نے اُس سے پوچھا؟۔ ”سورج چڑھ رہا ہے اور لہریں پیچھے ہٹ رہی ہیں میں نے انہیں پانی میں نہیں پھینکا تو یہ مر جائیں گی۔ نوجوان نے جواب دیا۔لیکن نوجوان ! یہ ساحل تو میلوں تک پھیلا ہوا ہے اور سارے ساحل پر ستارہ مچھلیاں بکھری ہوئی ہیں۔ ممکن نہیں کہ تمہاری اس کوشش سے کوئی فرق پڑے۔ نوجوان نے شائستگی سے دانشور کی بات سنی، نیچے جھک کر ایک اور ستارہ مچھلی اُٹھائی اُسے پیچھے ہٹتی ہوئی لہروں کے اندر پورے زور سے اچھالتے ہوئے بولا۔ لیکن اس کے لئے تو فرق پڑ گیا ناں!
میں اپنے اس تازہ موضوع پر قلم اُٹھانے سے پہلے کئی روز تک یہی سوچتا رہا کہ میرے لکھنے سے کیا فرق پڑے گا۔ پہلے بھی بہت سے موضوعات پر لکھا۔ خرابیوں کی نشاندہی کی لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی لیکن بے حسی کی اس کیفیت میں مجھے اس ”کہانی“ نے ایک نیا راستہ دکھایا۔ اگرچہ جس موضوع پر میں قلم اٹھانے لگا ہوں یہ یورپ یا برطانیہ کا معاملہ نہیں لیکن اس کا تعلق پاکستانی تارکین وطن سے ہے۔ جو کہ سعودی عرب میں ایک ایسی آفت سے ان دنوں دوچار ہیں جس کی وجہ سے اُن کے روزگار ہی نہیں متاثر ہو رہے بلکہ اُنہیں ڈی پورٹیشن کا بھی سامنا ہے۔ گزشتہ کئی روز سے وہ اپنے اپنے طریقے سے سوشل میڈیا پر چیخ رہے ہیں ارباب اختیار کو پکار رہے ہیں۔ سفارتخانوں سے اپیلیں کر رہے ہیں لیکن کوئی بھی اُن کی نہیں سن رہا۔مجھے 80 کی دہائی کا وہ دور یاد ہے جب اخبار میں چھپنے والی ایک چھوٹی سی خبر پر ایکشن لیا جاتا تھا۔ متعلقہ لوگوں سے باقاعدہ اعلیٰ افسران وضاحت طلب کرتے تھے اور عوامی شکایات کو دور کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں اُنہیں ناشتے کی میز پر پی آئی ڈی کی طرف سے پاکستان کے تمام اخبارات میں چھپنے والی اہم خبروں کی ایک سمری رپورٹ پیش کی جاتی تھی اور اُس بنیاد پر وہ اپنی کابینہ کے ارکان سے باز پرس کرتی تھیں۔ لیکن افسوس کہ آج کل پاکستان میں میڈیا کی ترقی کے باوجود متعلقہ ادارے یا حکام عام مسائل پر بھی توجہ نہیں دیتے بلکہ اگر ان کی توجہ اس جانب مبذول کروائی جائے تو اُسے اپنی دشمنی پر محمول کرلیتے ہیں۔ ہاں یہ بات اور ہے کہ الیکٹرانک میڈیا پر بار بار کسی خبر کے دوہرانے پر صدر یا وزیراعظم کی طرف سے ”نوٹس“ لینے کی خبر آجاتی ہے لیکن یہ ”نوٹس“ بھی محض ایک خبر ہی ہوتا ہے۔ یہیحال بیرون ملک سفارتخانوں کا ہے وہ بھی اسی بے حسی کا شکار ہیں انہوں نے کبھی لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا نہیں کیں بلکہ ہٹ دھرم بیورو کریسی کی طرح اُن کی مشکلات میں اضافے کا ہی باعث بنتے ہیں۔سعودی عرب میں کم از کم 2 ملین تارکین وطن کو نہ صرف ملازمتوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے بلکہ اُنہیں اس ملک کو بھی چھوڑنا پڑے گا اور ان 2 ملین میں ایک بہت بڑی تعداد پاکستانیوں کی بھی ہے۔ گزشتہ بدھ کو سعودی عرب کی وزارت لیبر نے Nitaqat system کے تحت 250,000 چھوٹی اور درمیانی کمپنیوں کو ”ریڈ کٹیگری“ میں ڈال دیا ہے۔ انہوں نے ان کمپنیوں کو خبردار کیا ہے کہ کم از کم ایک سعودی باشندے کو ملازمت دینے کی شرط پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے اب اُن کے ورک پرمٹس کی تجدید نہیں کی جائے گی۔جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ان کمپنیوں کے ملازمین کے اقاموں (Iqamas) کی بھی تجدید نہیں ہوسکے گی اور یہ لوگ سعودی عرب میں غیر قانونی امیگرینٹ کے زمرے میں آجائیں گے۔ سعودی کابینہ کے نئے پاس کردہ قانون کے مطابق اقامہ کی خلاف ورزی کرنے والوں کو گرفتار کرکے اُنہیں وزارت داخلہ ڈی پورٹ کرنے کی مجاز ہوگی۔ واضح رہے کہ سعودی حکومت نے 340,000 فرموں کو جن میں ایک بھی سعودی کام نہیں کررہا تھا اُنہیں 27 مارچ تک کی ڈیڈ لائن دی تھی کہ وہ اپنی صورتحال کو درست کر لیں،سعودی حکومت نے گزشتہ چار ماہ کے دوران 200,000 غیر ملکیوں کو غیر قانونی طور پر ملک میں رہنے پر ڈی پورٹ کیا ہے۔ پاسپورٹ حکام کے مطابق ان میں سمگل ہو کر آنے والوں کے علاوہ ایسے تارکین وطن بھی شامل ہیں جن کے رہائشی پرمٹ (اقامہ) کی کسی وجہ سے تجدید نہیں کی گئی۔ اگرچہ یہ آپریشن ایسی کمپنیوں کے خلاف کیا جا رہا ہے جو کہ غیر قانونی ”کور آپ بزنس“ میں ملوث تھیں لیکن ان میں کام کرنے والے لوگوں کا اس میں کوئی قصور نہیں کہ اُنہیں ڈی پورٹ کیا جائے۔ انہیں ایسی سہولتیں دی جانی چاہئیں کہ وہ اپنا پیشہ خود ہی تبدیل کرواسکیں تاکہ کسی اور کے پاس کام کرسکیں۔ متاثرہ تارکین وطن کی حکومتوں کو چاہئے کہ وہ سعودی حکومت سے اس حوالے سے بات کریں ان میں بھارت، بنگلا دیش اور پاکستان کے تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد شامل ہے جو کہ اِس آپریشن کی وجہ سے متاثر ہورہے ہیں اور اُن کی گرفتاریوں اور ڈی پورٹیشن کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔
سعودی عرب کے پاکستانی تارکین وطن کا مطالبہ ہے کہ نگراں حکومت اس سلسلے میں فوری ایکشن لے کسی حکومتی شخصیت یا سفارت کار کو سعودی حکومت سے مذاکرات کے لئے بھیجے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اقامہ قوانین کی خلاف ورزی کا ذمہ دار سعودی نظام خود ہے جس نظام کی وجہ سے غیر ملکی آزادی سے نہ تو کام کرسکتے ہیں اور نہ ہی وہ اپنے کاغذات بنوا سکتے ہیں کیونکہ سب کچھ سعودی کفیل کے ہاتھ میں ہوتا ہے اُن کا مطالبہ ہے کہ کسی بھی غیر ملکی کو اپنا پروفیشن خود تبدیل کروانے کی اجازت ہونی چاہئے تاکہ وہ متعلقہ ادارے میں جا کر اپنے ہنر اور تعلیم کے مطابق اپنا پروفیشن لے سکے۔ہر غیر ملکی کو اپنا کاروبار کرنے یا اپنی دکان وغیرہ کھولنے کی اجازت ہونی چاہئے اور کفیل کو کفالت وغیرہ دینے کی بجائے حکومت اپنی کوئی سالانہ فیس رکھے جس کو غیر ملکی سال کے سال ادا کرکے آزادی کے ساتھ اپنا کاروبار کرسکے۔ابھی جتنے گرفتار غیر ملکی ہیں ان کو ملک بدری کے بجائے ان کے پروفیشن اُن کے ہنر کے مطابق فیس لے کر تبدیل کئے جائیں اور اُن کو رہا کرکے کام کرنے کی اجازت دی جائے۔
پاکستانی حکومت کو چاہئے کہ وہ اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرے۔سعودی عرب میں مقیم پاکستانی تارکین وطن کی اکثریت محنت مزدوری کرتی ہے۔ پہلے ہی اُن کی حالت ٹھیک نہیں ہے وہاں ایک مزدور کی اوسط تنخواہ تقریباً 800 ریال ماہانہ یاتقریباً 9600 ریال سالانہ ہے۔ اُن کے اخراجات میں اقامے کی تجدیدتقریباً 750 ریال، تامین 1500 ریال، مکتب عمل کی فیس تقریباً 2500 ریال، رہائش کا کرایہ تقریباً 3600 ریال سالانہ (300 ریال ماہانہ) اور روزانہ کھانے پینے کا خرچ تقریباً 15 ریال (450 ریال سالانہ) شامل ہے۔ یعنی دیکھا جائے تو سال بھر کا خرچ اُن کی آمدنی سے زیادہ ہے اس لئے ملازمت کے بعد وہ کچھ اور کام بھی کرلیتے ہیں جن میں قلی گیری، پورٹر، کاروں کی دھلائی، ورکشاپ میں کام، صفائی کا کام، بجلی کی مرمت وغیرہ شامل ہے۔ مقصد اُن کا صرف اتنا ہوتا ہے کہ کچھ بچت کرکے گھر والوں کو بھیج سکیں لیکن کئی مہینوں کی محنت کے بعد جب وہ کچھ پیسے بچا کر گھر والوں کو بھیجنے کے قابل ہوتے ہیں اور بنک جاتے ہیں تو آگے سے سوال ہوتا ہے کہ اتنے پیسے کہاں سے آئے۔ پوچھ گچھ ہوتی ہے، کہا جاتا ہے کہ ”اقامہ مزدوری کا اور اتنے سارے پیسے گھر بھجواتا ہے۔بعض اوقات ایسے واقعات بھی ہوئے کہ پولیس تارکین وطن کو پکڑ کر لے جاتی ہے۔ جیل میں ڈالنے کے کچھ دنوں بعد خروج لگا کر واپس بھیج دیا جاتا ہے۔
تیرے دکھ کی گہرائی تک پہنچا کون؟
تیرے درد کی پنہائی میں اُترا کون؟
تیرے نام پر اپنا حق تو لے گئے سب
تجھ کو تیرا حق دلوانے نکلا کون
(سالک صدیقی)