• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یقیناً ہمیں اس سے کیا غرض کہ جدید سائنس نے اس دنیا کو تبدیل کر دیا ہے اور آنے والے چند مہینوں یا سال بعد فائیو جی ٹیکنالوجی انسانی زندگی کو یکسر نئی ڈگر پر رواں کر دے گی اور انسان تقریباً آدھی مشین یا ایک روبوٹ کی طرح ایکٹ کرے گا، بغیر ڈرائیور کے ٹرانسپورٹ چلے گی، روپیہ پیسہ بالکل ختم ہو جائے گا، خرید و فروخت، رقوم کی ترسیل یہ سب کچھ اب کریڈٹ کارڈ کو بھی پیچھے چھوڑ کر موبائل فون سے ہوا کرے گا، گھروں کے اندر کا تمام سسٹم یعنی الیکٹرک کا سارا نظام خودکار ہو گا، زیادہ سے زیادہ یہ کہ آپ بولیں گے لائٹس آف یا آن، فریج خود بتائے گا مجھے کیا چیز چاہئے یعنی کیا ختم ہو گیا ہے اور کیا ایکسپائر ہو چکا۔ گاڑیوں میں نصب سینسر ایکسیڈنٹ نہیں ہونے دیں گے۔ کسی بھی آواز کی ہو بہو نقل بلکہ عورت کی آواز کو مرد کی آواز میں بدلنے کے سافٹ ویئر موبائل میں ہوں گے (یہ سافٹ ویئر آج بھی دستیاب ہیں) ایک انسان کی طرح کے کئی انسان بنائے جا سکیں گے، لڑکا یا لڑکی اپنی مرضی سے پیدا کرنے کی ٹیکنالوجی عام ہو گی۔ ہر انسان کی اپنی ذاتی میڈیسن ہو گی، انسان کی طبعی عمر میں سو دو سو اور پانچ سو فیصد تک بھی اضافہ ممکن ہوگا! پر ہمیں کیا؟ ہم آوے ای آوے کے نعروں جیسے اللے تللوں میں خوش ہیں کیونکہ ہم 22کروڑ عوام ’’ماضی کے مزاروں‘‘ اور خوش کن وعدوں کے طلسم ہوشربا میں ہی خوش ہیں اس لئے ہماری بلا سے کہ برصغیر اور پوری دنیا کا میوزک ڈیجیٹل ہو جائے گا، ہوائی سفر انسانی سوچ سے بھی زیادہ تیز بلکہ زمینی، ہوائی اور بحری سفر کے علاوہ بھی ایسے ذرائع آمدورفت ایجاد ہو جائیں گے کہ ابھی عام انسان کی سوچ بھی وہاں تک نہیں پہنچ سکتی!

پر ہمیں کیا، ہم کیوں ان سائنسی و سماجی ترقیوں و تبدیلیوں پر اپنا سر دھنیں، ہمیں اور کام تھوڑے ہیں، اب ہمیں کیا پڑی ہے یہ سوچنے کی کہ پیدا ہوتے ہی ہر انسان کے اندر دال کے دانے جتنی ایک چپ لگا دی جائے گی، اسی چپ میں کیمرہ بھی ہو گا، ساری زندگی میڈیکل سے لیکر بینک اکائونٹ اور ہر قسم کا ریکارڈ اس میں ہو گا یہ کیمرہ اندر کی تمام صورتحال اور تصاویر آپ کے کمپیوٹر کو بھیجے گا، یہ بتائے گا کہ اندر کون سی بیماری ہے یا آنے والے دس بیس برسوں میں ہو سکتی ہے، ہمیں تو سوچنے کی ضرورت ہی نہیں کہ طبی سائنسدان اس ایجاد کے قریب ترین کہ کینسر کے جراثیموں کو مار سکیں، لیکن ہمیں نہ سوچنے کی ضرورت ہے نہ دھیان دینے کی کہ مستقبل قریب میں ایسے ٹائلٹ بنا دیے جائیں گے جو روزانہ بتائیں گے کہ آج آپ نے فلاں چیز زیادہ کھائی ہے، اسے کم کریں یا یہ مضر صحت ہے کیونکہ ٹائلٹ میں ایک چپ لگی ہو گی پھر ٹائلٹ روم کے اندر ایسے شیشے لگے ہوں گے جن کے سامنے سانس چھوڑنے پر یہ شیشہ بتائے گا کہ آپ کو پھیپھڑوں کا سرطان تو نہیں، آپ کی شوگر زیادہ ہے، کولیسٹرول یا کوئی دوسری بیماری ہے، ٹائلٹ میں نصب یہ دو انتہائی چھوٹی چپس آپ کا پورا ڈی این اے آپ کے سامنے روزانہ کی بنیاد پر رکھیں گی، یہ بتائیں گی کہ آپ کو اگلے 20سال میں کیا کیا بیماریاں ہو سکتی ہیں، ان کا علاج کر لیں لیکن ہمیں ان ’’فضولیات‘‘ پر سوچنے کی کیا ضرورت ہے کہ MRIاسکین جو آج کل ایک پورے کمرے میں نصب ہوتا ہے، یہ سمٹ کر آپ کے موبائل فون جتنا ہو جائے گا۔ ہر انسان کے باڈی پارٹس لیبارٹریوں میں آپ کے اپنے ’’ڈی این اے‘‘ سے تیار ہوں گے جن میں دل، جگر، پھیپھڑے،ہڈیاں، خون کی نالیاں اور دماغ تک تیار ہو گا، کومے میں پڑا کوئی شخص کمپیوٹر پر وہ ہر کام کر سکے گا جو ایک عام صحتمند انسان کر سکتا ہے!

لیکن ہمیں ان سائنسی ایجادات کی موشگافیوں میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے، ہم تو مصروف ہیں یہ طے کرنے میں کہ درست ہے اور کیا غلط، ہمیں یہ جاننے کی ضرورت تھوڑی ہے کہ 2018ء میں آنجہانی برطانوی سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ جو چلنے پھرنے، بولنے اور ہاتھ پائوں ہلانے تک سے معذور تھا اور اپنی عینک میں لگے ایک سینسر سے آنکھوں کے اشارے سے کمپیوٹر پر لکھتا تھا لیکن اس ماہر فلکیات اور نظریاتی طبیعات دان کی بلیک ہول تھیوری اور ان کی تصنیف A BRIEF HISTORY OF TIMEنے سائنسی دنیا میں کیا انقلاب برپا کیا اور اسے آئن اسٹائن کے بعد سب سے بڑا سائنسدان کیوں گردانا جاتا ہے۔ پر ہمیں کیا کیونکہ ہم مصروف ہیں، ہمیں نہ آئن اسٹائن کو جاننے کی ضرورت ہے نہ نیوٹن پیدا کرنے کی چاہت! کیونکہ ہمیں مغز کھپانے کی ضرورت نہیں کہ آئن اسٹائن نے نظریہ اضافت، کشش ثقل وغیرہ پر کیا کام کیا، ہمیں کیا پڑی ہے یہ جاننے پڑھنے اور سمجھنے کی کہ نیوٹن نے اپنی تصنیف ’’پرنسپیا‘‘ میں، ڈارون نے ’’اصل الانواع‘‘ میں، فرائیڈ نے ’’سائیکو انالیسز‘‘ میں کیا خدمات انجام دیں اور کیا کیا انسانیت کی خدمت کی، ہم جاننا ہی نہیں چاہتے کہ میری کیوری، گیلیو، تھامس ایڈیسن، مائیکل فریڈی، لینارڈو ڈاونچی، گراہم بیل، رچرڈ ڈاکنز، بنجمن فرینکلن وغیرہ وغیرہ کون تھے۔ انہوں نے سائنسی دنیا میں ترقی کے کون کون سے بند دروازے کھول کر آنے والی نسلوں کیلئے کیا کیا خدمات انجام دیں!

پر ہمیں کیا، ہم زمانے کی رفتار یا تغیر کو بھی کچھ نہیں سمجھتے کیونکہ ہم تو اپنے اپنے اعتقادی، سماجی اور قدرے کاسی TABOOSمیں مصروف و مگن ہیں، ہم نے کبھی یہ جاننے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی کہ حافظ کا دیوان، مولانا روم کی ’’مثنوی‘‘ شیخ سعدی کی’’ گلستان و بوستان‘‘، فردوسی کا ’’شاہنامہ‘‘، عمر خیام کی ’’رباعیات‘‘، ابن خلدون کا ’’مقدمہ‘‘، ہومر کی ’’اپلیڈ‘‘ مارکس کی ’’داس کیپٹل‘،‘ ہیگل کی ’’لوجک‘‘، ٹالسٹائی کا ’’وار اینڈ پیلس‘‘، ارسطو کی ’’سیاسیات‘‘، افلاطون کی ’’ری پبلک‘‘ کالی داس کی ’’شکنتلا‘‘ اور میکاولی کی ’’دی پرنس‘‘ کے اسباق کیا تھے اور ان کی تصنیفات کے ماضی قریب اور آ ج کے زمانے پر کیا کیا اثرات ہیں؟ لہٰذا ہماری اس بے اعتنائی کی وجہ صرف ایک ہے کہ ’’ہمیں کیا‘‘!

تازہ ترین