• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کورونا کے نام سے لرزۂ بر اندام ہے۔ قریہ قریہ، نگر نگر وحشت، اداسی اور خوف کی حکمرانی ہے۔ انسان اپنی طاقت، تکبر، وسائل، ٹیکنالوجی، حکمت عملی، سائنسی ترقی اور برتری کے زعم میں مبتلا تھا مگر کورونا نے اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے۔ امریکہ، چین، فرانس، جرمنی، اٹلی، سپین سے لے کر افریقہ کے غیر ترقی یافتہ ممالک تک ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے ہیں۔

اس نازک دور میں جب اپنے، اپنوں سے بیگانہ ہو رہے ہیں، ملاقات سے اجتناب، ہاتھ ملانے سے گریز کیا جا رہا ہے ایسے میں صرف مسیحا یا طبی عملہ ہی جان پر کھیل کر اس بیماری کے خلاف جنگ میں مصروف ہے۔ یہ جانباز، جرأت مند اور بے خوف طبقہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے فرائض منصبی سر انجام دے رہا ہے اور اپنے اہل خانہ کو بھول کر انسانیت کی خدمت میں کوشاں ہے، جانیں بچانے میں سرگرداں ہے۔ دن رات موت کا رقص دیکھ کر بھی دیوانہ وار مسیحائی کر رہا ہے۔ لازوال جرأت اور بے مثال عزم صمیم کے ساتھ کورونا سے نبردآزما ہے۔

دورانِ ملازمت میں نے اکثر دیکھا کہ اگر مریض کو خون کی ضرورت پیش آ جائے تو عزیز و اقارب خوف سے بھاگ جاتے تھے مگر اسپتالوں میں نوجوان ڈاکٹرز، نرسز اور دیگر عملہ خون کا عطیہ اعزاز سمجھ کر پیش کرتا تھا، اب جبکہ مریضوں کو موت کا خوف ہے۔ عزیز و اقارب قریب نہیں آتے مگر مسیحا اس خوف اور وسوسے سے ماورا ہو کر کام کر رہے ہیں جو قابل فخر ہے۔مگر بدقسمتی سے ان مجاہدوں، سرفروشوں کی حفاظت اور جان بچانے کے لئے بنیادی اور اہم اقدامات نہیں کئے گئے، جس کے نتیجے میں 25سالہ نوجوان لیڈی ڈاکٹر سے لے کر 70سال تک کے متعدد ڈاکٹرزجاں بحق ہو گئے ہیں اور طبی عملہ میں کورونا وائرس پھیلنے کی شرح میں 80فیصد اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں میں 1000سے زائد ہیلتھ ورکرز اس کا شکار ہو چکے ہیں۔ یہ انتہائی خطرناک عمل ہے۔ کوروناوائرس کے سامنے مسیحائوں پر مشتمل دیوار منہدم ہو رہی ہے۔ شہدا کے نام اخباروں میں آ گئے، ان کے بارے میں تو معاشرے کو معلوم ہو گیا مگر بہت سے گمنام سپاہی، یعنی نرسز اور پیرا میڈیکل سٹاف بھی شہید ہو چکے ہیں مگر کوئی ان کا نام لیوا نہیں ہے۔ اصل تعداد کا تعین ممکن نہیں ہے، اس وبا کے خاتمے تک نہ جانے کتنے مسیحا خاک میں مل جائیں گے۔

میں گزشتہ ہفتےتقریباً 4600کلومیٹر کاسفر طے کرتے ہوئے لاہور کے 5اسپتالوں کے علاوہ نشتر اسپتال ملتان، ڈی جی خان اسپتال، سول اسپتال کوئٹہ، بارکھان، موسیٰ خیل اسپتال، بلوچستان، سوات اور بنوں کے اسپتالوں میں حفاظتی سامان بطورِ عطیہ تقسیم کرکے واپس لاہور آیا تو سوچا پورے پاکستان کے عوام کو مطلع کروں کہ ینگ ڈاکٹرز بے تیغ سپاہی کے طور پر جس طرح یہ جنگ لڑ رہے ہیں، اس کی مثال نہیں ملتی اور وہ یہ جنگ بغیر کسی تیاری یا تجربے کے لڑ رہے ہیں اور اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار ہیں۔ سوال مگریہ ہے کہ کیا حکومت اسپتالوں اورطبی عملہ کو مطلوبہ وسائل،تحفظ اور مدد فراہم کررہی ہے؟ جنگ کے لئے تیاری ضروری ہوتی ہے۔ دورانِ جنگ فوجی اسپتالوں میں نارمل داخلے روک دیے جاتے ہیں۔سول اسپتالوں کے بیڈ تک مجاہدوں کے لئے مختص کر دیے جاتے ہیں، اسی طرح ضروری ہے کہ ان دنوں اسپتالوں کے چند بیڈز ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملہ کے لئے مختص کر دیئے جائیں،ان کی جان بچانے کے لئے علیحدہ وارڈ، آلات اور دیگر سہولتوں کی فراہمی ناگزیر ہے۔چند تجاویز پر عمل پیرا ہو کر ہم مسیحائوں کی جان بچا سکتے ہیں۔تمام طبی عملہ کو حفاظتی لباس، ماسک، دستانے اور دیگر ضروریات فراہم کی جائیں۔ بجٹ صحیح استعمال کیا جائے، اس وقت تمام ضروری اشیاء پاکستان میں بن رہی ہیں اور کم قیمت پر دستیاب ہیں،انہیں استعمال میں لایا جائے۔ حکومت، وزارتِ صحت اور محکمہ صحت ہٹ دھرمی اور ضد ترک کر دے۔ طبی عملہ سے تنازع، جھگڑا،تشدد یا انتقامی کارروائی کرنے کی بجائے افہام و تفہیم اور محبت سے کام لیا جائے۔ تمام طبی عملہ کو خصوصی الائونس دیا جائے۔اس وقت صرف کورونا مریضوں کے ساتھ کام کرنے والے عملہ کو یہ الائونس دیا جا رہا ہے۔اسپتالوں میں موجود تمام طبی عملہ اور اسپتالوں کے دیگر ملازمین بھی کورونا میں مبتلا ہونے کے خدشہ سے دوچار ہیں۔اس لئے تفریق نہیں کی جا سکتی۔ شہدا کو قومی اعزازات سے نوازا جائے اور خصوصی گرانٹس فراہم کی جائیں۔ تمام پالیساں ماہرین کی رائے سے تشکیل دی جائیں۔ وبائی امراضCDC اور پبلک ہیلتھ کے ماہرین (حالانکہ ان کی تعداد بہت کم ہے)کو بھی شامل کیا جائے۔ غیر معیاری حفاظتی کٹس اور دیگر آلات کا استعمال ترک کر دیا جائے، بغیر تنخواہ کام کرنے والے نوجوان ہائوس آفیسرز اور پوسٹ گریجوایٹس انٹرنیز کو فی الفور بلا تفریق مشاہرہ دیا جائے۔ لوکل ٹرانسمیشن کیسز میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ ضروری ہے کہ اسپتالوں میں کام کرنے والے عملے کو 100فیصد حفاظتی لباس فراہم کئے جائیں۔ متعدد اسپتالوں میں سیمپل کولیکشن کی کمی ہے اور سیمپل لینے اور اس کی ترسیل کے لئے تربیت یافتہ عملہ موجود نہیں، لہٰذا عملے کی فوری تربیت وقت کی ضرورت ہے۔ تمام طبی عملہ کی اجتماعی سکریننگ کی جائے اور متاثرہ طبی عملے کے لئے فی الفور معیاری قرنطینہ سہولتیں فراہم کی جائیں۔ طبی عملے کی تربیت کے لئے آن لائن ٹریننگ کا آغاز کیا جائے۔ اس وبا کے دوران ٹیلی میڈیسن نیٹ ورک کو پورے ملک میں پھیلایا اور اس سے استفادہ کیا جائے۔ اسپتالوں کے او پی ڈی، قرنطینہ وارڈ اور آئی سی یو میں بھی ٹیلی میڈیسن کا مؤثر انتظام کیا جا سکتا ہے۔ صوبائی محکمہ صحت اور وفاقی وزارتِ صحت کے درمیان مؤثر اور مسلسل رابطہ برقرار رہنا چاہیے اور متفقہ پالیسز پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔ اس وبا کے حوالے سے سیاسی فیصلوں کی بجائے ماہرین کی رائے کو فوقیت دی جانی چاہیے۔ یہ جنگ جیتنے کے لئے ہمیں طبی عملہ کی جان بچانا ضروری ہے۔ اگر وہ بیمار ہو گئے یا خدانخواستہ جاں بحق ہوتے گئے تو مریض بے یارو مددگار رہ جائیں گے۔

تازہ ترین