انسان خواہشوں کا مجموعہ ہے، جب روزمرہ زندگی کی ضروریات پوری ہو جائیں تو پھر خواہشات پوری کرنے کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیتا ہے اور پھر اسی بھاگ دوڑ میں اس ریس کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور یہ خاتمہ کامیاب اور جو اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب نہ ہو سکے دونوں میں مشترک ہے۔ حضرت عیسیٰؑ کا فرمان ہے ’’زوال طے ہے‘‘ اور پھر دنیا بھر میں جہاں انسان اپنی زندگی کے سفر میں سنتا اور سناتا ہے، پڑھتا اور پڑھاتا ہے، وہیں اس کا اس حقیقت سے بھی پالا پڑتا ہے کہ جس نے آنا ہے اس نے جانا بھی ہے۔ بس طے یہ کرنا ہے کہ واپسی کا سفر طے کیسے کرنا ہے۔ اپنی طبعی زندگی کے بعد ان لوگوں میں شمار ہونا ہے جنہیں ہم عوام سمجھا جاتا ہے یا زندگی ایسے بسر کرنی ہے کہ صدیوں تک حوالہ دیا جاتا رہے۔ جن ملکوں میں کامیاب لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے وہاں کے لوگوں کی قسمت جاگ جاتی ہے، اپنی زندگی کے انداز سے ایسے لوگ قوموں کی قسمت بدل دیا کرتے ہیں۔ جن ملکوں میں ہیروز، چیمپئن اور کامیاب لوگوں کی اکثریت ہے وہاں آج پاکستان کے لاکھوں لوگ اچھی زندگی گزارنے کے لئے شفٹ ہو چکے ہیں اور ان کے نظام حکومت، طبی نظام اور تعلیمی نظام سے استفادہ کر رہے ہیں۔ سماجی اور مذہبی اختلافات کے باوجود ہمارے لوگوں کی ایک کثیر تعداد وہاں رہائش اختیار کرنے کی خواہش رکھتی ہے۔ 1976ء میں پنجاب کے ایک زرخیز علاقہ پیر محل کا ایک نوجوان گریجویشن کی ڈگری لے کر ولایت روانہ ہوا، گو عمر تو ابھی زیادہ نہیں تھی لیکن اس نوجوان کی آنکھوں میں خواب بہت بڑے تھے۔ ابتدا میں بڑی محنت کی اور اپنی جدوجہد کا مرکز و محور اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو کو بنا لیا۔ چھوٹی چھوٹی مارکیٹ کے اندر اسٹال لگایا، آئرلینڈ سے انڈے منگا کر اسکاٹ لینڈ میں فروخت شروع کی اور اسی دوران یو کے میں پہلے سے آباد پاکستانی فیملی میں شادی ہوئی۔ اس نوجوان نے بزنس کے ساتھ مقامی سیاست میں بھی حصہ لینا شروع کر دیا اور گلاسگو سے تین مرتبہ کونسلر منتخب ہوا۔ یہ نوجوان اپنے بزنس کا دائرہ بھی مزید بڑھاتا رہا اور کارنر شاپس کھولنا شروع کر دیں اور اسکاٹ لینڈ کے جانے پہچانے ریٹیلرز میں اپنا ایک مقام بنا لیا۔ آج اس شخص کا شمار اسکاٹ لینڈ اور یوکے کے ممتاز بزنس مین میں کیا جاتا ہے۔ سیاست کے میدان میں بھی اس شخص نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور لیبر پارٹی کے ٹکٹ پر پہلا مسلمان ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوا اور قرآن مجید پر حلف لے کر مسلم امہ کے لئے باعثِ فخر بنا۔ دھرتی یہی ہے جہاں میں اور آپ رہتے ہیں، اس نوجوان نے اس کا مان بڑھایا ہے اور اپنے حصہ کا کام کیا اور زندگی کے سفر میں دوبارہ وہیں کا رخ کیا جہاں کا خمیر تھا اور یہاں پر آ کر سیاست کا آغاز کیا اور بالآخر پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا گورنر بنا دیا گیا۔ میں آج تک کسی بیرونِ ملک مقیم پاکستانی کی ملکی سیاست میں یہ سب سے بڑی انٹری سمجھتا ہوں۔ نواز حکومت کے ساتھ گورننس کے اصولوں پر اختلافات کی بنا پر استعفیٰ دے کر پی ٹی آئی جوائن کی اور سیاسی جدوجہد کرکے اپنا ایک مقام بنایا۔ جب عمران خان صاحب کو دو دہائیوں سے زائد سیاسی جدوجہد کے نتیجہ میں حکومت ملی تو ایک بار پھر ان کو گورنر پنجاب مقرر کیا گیا۔ اور پنجاب کے گورنرز میں پہلی مرتبہ اگر کسی مسلمان کو دو مرتبہ یہ عہدہ ملا تو وہ کوئی اور نہیں بلکہ 1976ء سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کرنے والا پیر محل کا وہ نوجوان ہے جو آج ایک منجھا ہوا سیاستدان ہے اور جسے لوگ چوہدری محمد سرور کے نام سے جانتے ہیں۔ جیسے میں نے کہا کہ کامیاب، محنتی، چیمپئن اور ہیروز اپنے ملکوں کو اٹھاتے ہیں، اپنے ملک کے لوگوں کا مان بڑھاتے ہیں اور وہاں کے لوگوں کیلئے ایسے حالات پیدا کرتے ہیں کہ مایوسی کے بادل چھٹ جاتے ہیں، امید کی کرنیں ایسے ہی کامیاب لوگوں کی وجہ سے گھروں میں خوشحالی اور تہذیب و تمدن کا پیغام لے کر آتی ہیں۔ بندے تو سب خدا کے ہیں لیکن اس کا پسندیدہ بندہ وہی بن پاتا ہے جو اپنی ذات سے نکل کر اس کے بندوں کیلئے کچھ کرتا ہے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان کی مثال ہم سب کے سامنے ہے، کیسے انہوں نے اپنی ٹیم کی تمام تر صلاحیتوں کو استعمال کرکے اپنی قائدانہ سوچ سے 1992کا کرکٹ ورلڈ کپ جتوا کر پوری قوم کا سر فخر سے بلند کیا اور بعد میں شوکت خانم کینسر اسپتال کی بنیاد رکھ کر ایک ایسی مثال قائم کی جو مدتوں یاد رکھی جائے گی اور یہ خان صاحب کا کامیاب لائف اسٹائل ہی ہے جس نے ہمارے ملک میں کئی اور لوگوں کی اس طرف توجہ دلائی کہ وہ اپنے حصہ کا کام کریں اور اپنے عمل سے دکھایا کہ تعمیر پاکستان میں کیسے حصہ لیا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے عمران خان نے ایک ایسے رول ماڈل کا کردار ادا کیا جس کی گونج صدیوں محسوس کی جائے گی۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ کامیاب انسان صرف ایک کھلاڑی، شوبز اسٹار یا مذہبی اسکالر ہی ہو سکتا ہے بلکہ ہمیں اپنے طالبعلموں، کسانوں، محنت کشوں میں بھی ہیروز اور چیمپئن پیدا کرنا ہوں گے اور باصلاحیت افراد کی قدر کرنا ہوگی تاکہ ہمارے معاشرے کا بوجھ حکومت کے علاوہ ان غیر معمولی لوگوں کے کاندھوں پر بھی آ سکے۔ پاکستان کی مٹی بڑی زرخیز ہے اگر ہم اپنے دل بڑے کریں اور ایسے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کریں جو ہمارے رویوں کی وجہ سے یا تو گھر بیٹھے ہیں یا پھر بیرونِ ملک، تو وہ دن دور نہیں کہ یہی ہیروز اپنی خداداد صلاحیتوں سے ملک کی تقدیر بدل دیں۔