• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گورننس فیصل آباد کے گھنٹہ گھر کی طرح ہے جس طر ف جائیں اس کے مناظر نظرآتے ہیں ماضی میں صدور اور وزرائے اعظم بھی مشیر رکھا کرتے تھےیہ ایوب خان کے زمانے میں بھی ہوا کرتے تھے ان کےلئے اخبار کا خصوصی شمارہ شائع کراتے تھے وہی شمارہ شائع کراتے جو جنرل ایوب خان پڑھا کرتے تھے جسے پڑھ کر یہ معلوم ہوتا کہ نظام حکومت نہایت عمدگی سے چل رہا ہے اور بے مثال بھی ہے کبھی کبھار کچھ شر پسند حزب اختلاف کچھ نامناسب باتیں کرتے ہیں کا مقابلہ وزارت اطلاعات و داخلہ بخوبی کرتی ہے اور نظام حکومت چند لوگوں کی مداخلت کے علاوہ عوام میں بہت مقبول ہےاسی رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے وزارت داخلہ نے جماعت اسلامی کو کالعدم قرار دیا چونکہ وہ بہت منظم طریقے سے مخالف تھی اس کارنامے کے پیچھے وزیر داخلہ حبیب اللہ تھے یہ اقدام ان کے ہائے نمایاں میں شامل ہے اور آج بھی انہیں اس حوالے سے یاد کیا جاتا ہے مورخ اچھے لوگ نہیں ہوتے وہ ہمیشہ وزارت اطلاعات اور داخلہ کے کارناموں کی تعریف نہیں کرتے بہر حال ملک کی صنعتی ترقی اور بین الاقوامی تعلقات کے اعتبار سے ایوب خان صاحب کا دور قابل تعریف تھا ۔ جماعت اسلامی نے جب بھی بحال ہونا تھا ہوگئی جماعت نے حکومت کا فیملی پلاننگ پروگرام نہ چلنے دیا ۔ جو حکومت کا اہم ترین پروگرام تھا، جماعت اسلامی کے علاوہ کچھ افراد بھی مخالفت سے بالکل باز نہ آتے تھے خصوصاً جسٹس (ر) ایم آر کیانی صدر پاکستان کو لائل پور کا گھنٹہ گھر کہہ کر مذاق اڑاتے قارئین جانتے ہوں گے کہ حبیب جالب دوسری شخصیت تھے خوب شاعری کرتے تھے۔ مجھے ٹھیک سے یاد نہیں کہ یہ شعر کسی کی تُک بندی ہے۔

میرا پاکستان ہے نہ تیرا پاکستان ہے

یہ اس کا پاکستان ہے جو صدر پاکستان ہے

یہ دور ہر لحاظ سے قد آور حکمرانوں کا تھا۔ مثلاً فرانس میں صدر ڈیگال، ہندوستان میں جواہر لال نہرو، مصر میں جمال ناصر، امریکا میں جان ایف کینیڈی اور پھر ان کے قتل کے بعد لندن میں جانسن اور پاکستان میں ایوب خان، ایران میں شہنشاہ ایران ان کے کارنامے بھی (سوائے چند کوتاہیوں کے) طویل القامت اور بڑے ہیں۔

غالباً صرف ایک قدر آور سویلین وزیر اعظم بعد میں آیا وہ محمد خان جونیجو تھے۔ جن کا دامن صاف اور سراپا شرافت تھے۔ ایک شخص نے قتل کیا اور عدالت میں کہا کہ وہ وزیر اعظم کا گہرا دوست ہے۔ وزیر اعظم سے تصدیق کی گئی تو یہ قربت ملزم کے گلے پڑ گئی۔ جونیجو صاحب نے کہا۔ قرار واقعی سزا دو اور ذرا بھی لحاظ نہ کرو بے شک میرا دوست ہے مگر ملزم کو رعایت قطعی نہیں ملنی چاہئے اگر یہ سنی سنائی بات درست ہے تو یہ ہوتا ہے انصاف۔

سنی سنائی باتوں میں ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ وزیر اعظم مقرر ہونے کے بعد جونیجو صاحب اپنے گھر کراچی آئے تو راستے میں ایک سڑک کے گرد کوڑا کرکٹ تھا انتظامیہ نے اس کے گرد قناتیں لگوادیں۔ مگر اصل راستہ جونیجو صاحب کوڑے کرکٹ کیساتھ ایک عرصے سے دیکھتے آئے تھے،وہ گاڑی سے باہر نکلے اور انتظامیہ پر غصہ ہوئے کہ بلا وجہ اس کوڑا کرکٹ کو چھپانے کے لئے یہ خرچ کیوں کیا، مجھے معلوم ہے ان قناتوں کے پیچھے کیا ہے، صفائی کرانے کے بجائے اس کچرے کو چھپا کر مجھے دھوکا دیتے ہو؟ انتظامیہ نے بڑی مشکل سے معذرت کرکے جان چھڑائی، انتظامیہ دلائل دینے کی بادشاہ ہوتی ہے، جونیجو صاحب نے قومی خزانے کا ضیاع ہونے سے بچانے کی بھی بھرپور کوشش کی بلکہ بچت کی پالیسیاں بنائیں جناب ضیاءالحق صدر تھے جب جونیجو صاحب منیلا کے دورے پر گئے تو اس دوران معزول کردیا وہ دورہ مختصر کرکے واپس آگئے مگر کوئی انقلاب نہ لائے، شرافت سے گھر چلے گئے، جب ضیاء الحق صاحب کو فضائی حادثہ پیش آیا اور وہ جاں بحق ہوئے تو سب سے پہلے مغموم جونیجو صاحب آخری رسومات میں شرکت کیلئے پہنچے۔ گورنر جنرل اور پھر صدر پاکستان ہونے والے اسکندر مرزا اس سے پہلے قبائلی علاقوں کے پولیٹکل ایجنٹ بعد میں گورنر صوبہ سرحد (اب خیبر پختونخوا) کے گورنر رہے تھے۔

قبائلی علاقوں میں شورش تھی کچھ سردار (حزب اختلاف) ’’شرپسندی‘‘ سے باز نہ آرہے تھے، میجر جنرل اسکندر مرزا نے انہیں عشایئے کیلئے دعوت دی اور کھانے کے بعد مذاکرات ہونے تھے، مرزا صاحب نے مناسب مقدار میں کھانے میں جمال گھوٹہ ملوا دیا۔ (حوالہ:الطاف گوہر، ایوب خان)۔

تمام سردار مذاکرات کے بجائے اپنے پیٹ پکڑ کر گھروں کو بھاگے اور ایک ہفتہ تک یہ عشائیہ بھگتتے رہے، اور مذاکرات کی نوبت نہ آئی، یہ دنیا فانی ہے، اسکندر مرزا کا جب انتقال ہوا تو وہ ایران میں دفن ہوئے، اب وزیر اعظم عمران خان کے ارد گرد بظاہر سب راستے مسدود نظرآتے ہیں، ایک طرف کورونا، دوسری طرف اپنے ساتھیوں کو عدالت سے انصاف کی فراہمی، تیسری طرف ریاست مدینہ کا وعدہ، چوتھی طرف آٹے اور چینی کے اسکینڈل،نکلیں تو کہاں سے؟ چاروں طرف سے راستے مسدود ہیں، ایک چھوٹی سے گلی ہے اسے ’’شرپسندوں‘‘ (مضبوط حزب اختلاف) نے روکا ہوا ہے۔

میری عمر اب (72) بہتر برس ہے، بارہ برس بچپن کے نکال کر ساٹھ برس سے بتدریج یہ تماشہ دیکھ اور سمجھ رہا ہوں، میں اور پاکستان جڑواں بھائی ہیں چونکہ میں اور پاکستان دونوں 14اگست 1947ء کے دن اور سال پیدا ہوئے، میرا جڑواں بھائی پاکستان (1970-71)میں مفلوج ہوگیا، پڑوسی دشمن نے آدھے حصے کو مفلوج کردیا، میں کیا کروں؟ کس سے فریاد کروں؟ آدھے صحت مند حصے پر 50سال سے لوگ تیر برسا رہے ہیں،مجھے بہت دکھ ہے، اللہ تعالیٰ کے حضور حاضرہونے کیلئے پابہ رکاب ہوں، شکایت کروں گا، اب وہ کورونا یا سونامی کی بجائے، درخواست کروں گا کہ رحمت بھیجے، مظلوم عوام بے بس ہیں، اے کاش حکمراں سیاسی تاریخ پڑھ لیا کریں مگرا نہیں اپنی تاریخ تخلیق کرنے کا شوق رہتا ہے، ’’یہی جمہوریت کی خوبصورتی ہے‘‘؟۔

تازہ ترین