• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہنے کو تو AIمحض دو انگریزی حروف ہیں جو آرٹیفیشل انٹیلی جنسی کا مخفف ہیں، جسے ہماری زبان میں مصنوعی ذہانت کہا جاتا ہے۔ یہ معاشرے کے کچھ مشکل چیلنجوں کو حل کرنے اور سب کے لئے ایک محفوظ ، صحت مند اور زیادہ خوشحال دنیا کی تشکیل میں ہماری مدد کرسکتی ہے۔ اگر آپ کو مصنوعی ذہانت سمجھنےمیں مشکل پیش آرہی ہے تو یوں سمجھ لیں کہ آپ کے ہاتھ میں موجود موبائل فون مصنوعی ذہانت کی ایک عمدہ مثال ہے، آپ اسے کہیں گے کہ فلاں کو فون ڈائل کردو تو وہ آپ کو اس شخص کا نمبر ملا کر دے دیگا۔ 

اس کے علاوہ آپ کسی بھی زبان میں لکھی تحریر کو اپنی زبان میں پڑھنا چاہیں تو آپ کو یہ سہولت بھی آسانی سے مل جاتی ہے۔ یہ توخیر معمولی مثالیں ہیں، مصنوعی ذہانت کی دنیا اس سے بھی کہیں آگے جاچکی ہے۔ اب کوئی ایسا شعبہ نہیں جہاں مصنوعی ذہانت، اپنی ذہانت کے پنجے نہ گاڑ رہی ہو،صحت سے لے کر زراعت تک اور تعلیم سے آٹوموٹو انڈسٹری تک، سب جگہ مصنوعی ذہانت زندگی کو آسان اور ترقی کی رفتار تیز کررہی ہے۔

طلبا کی ضروریات کے مطابق تدریسی طریقوں میں مصنوعی ذہانت سے فائدہ اٹھایا جارہاہے۔ اس کے ذریعے طلبا کی ذہانت یا امتحانات کی جانچ پڑتال اور ان کی درجہ بندی خود بخود ہو جاتی ہے۔ اساتذہ کو پیپرز چیک کرنے کی مشقت بھی نہیں کرنی پڑتی، اس طرح ان کے پاس طلبا کے ساتھ کام کرنے اور انہیں علم منتقل کرنے کا زیادہ وقت میسر آجاتا ہے، ساتھ ہی تعلیم کا نظام بہتر سے بہتر کرنے کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔

دنیا بھر میں بہت ساری کلاس رومز ہیں، جہاں اساتذہ مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے طلبا کے بہت مختلف گروپس کو تعلیم دیتے ہیں ، جو کہ متعدد زبانیں بولتے ہیں۔ لبنان کے ایک سیکنڈری اسکول نے ون نوٹ (OneNote) اور مائیکرو سافٹ ٹیم جیسی ایپلی کیشنز کے ذریعہ طلبا اور اساتذہ کے مابین تعلیمی تعامل کو بہتر بنایا، جو ریئل ٹائم میں ان کی زبان کا ترجمہ مہیا کرتی ہے۔ اس کی مدد سے مختلف زبانیں بولنے والے طلبا کو ایک دوسرے سے بات چیت کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ یہ ٹولز نہ صرف بہتر تعاون اور پروڈکٹیویٹی بلکہ طلبا اور اساتذہ کے مابین باہمی روابط کو بھی فروغ دیتے ہیں۔

آسٹریلوی پروفیسر ڈیوڈ کیلر مین نے کچھ عرصہ قبل اپنی یونیورسٹی کے طلبا کے لئے سیکھنے کا انوکھا تجربہ کیا۔ انہوں نے کوئسچن بوٹ(Question bot)کا استعمال کیا، جو خود ہی پاور بی آ ئی ڈیش بورڈ (Power BI dashboard)کے ذریعے طلبا سے سوالات کا جواب لے سکتا ہے۔ یہ طلبا کے جوابات کا ان کے دیگر ساتھیوں کے ساتھ موازنہ کرتا ہے اور پچھلی کارکردگی کی بنیاد پر مستقبل کے امتحانات کے لئے ذاتی نوعیت کے اسٹڈی پیکس تیار کرنے میں مدد کرتا ہے۔ مائیکرو پاور بی آئی کا مطلب ایسا بزنس انٹیلی جنس(BI)پلیٹ فارم ہے، جو غیر تکنیکی بزنس یوزرکو ڈیٹا کے تجزیے، جمع کرنے، ملانے ، دیکھنے اور شیئر کرنے کے ٹولز فراہم کرتاہے۔

اسی طرح بیکن (Beacon)نامی ایک نیا ڈیجیٹل اسسٹنٹ کچھ عرصہ قبل برطانیہ کی اسٹیفورڈشائر یونیورسٹی میں متعارف کروایا گیا۔ یہ اس تناؤ اور اضطراب کو کم کرنے میں مدد کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے جس سے بہت سے طلبا یونیورسٹی میں اپنے پہلے سال کے دوران سامنا کرتے ہیں۔ اس کی ہوسٹنگ مائیکرو سوفٹ ایزور(Microsoft Azure)کلاؤڈ کمپیوٹنگ پلیٹ فارم پر ہوتی ہے۔ بیکن اس حقیقت کا فائدہ اٹھاتا ہے کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجیزکے حوالے سے برطانیہ کی صف اوّل میں سے ایک اسٹیفورڈ شائر یونیورسٹی کے طلبا کیسے اپنے موبائل فون کے ذریعے معلومات تلاش کرتے ہیں یا اپنے ادارے کےعملے میں سے کسی سے بات کرنےیا کسی لیکچرار سے مد د لینے کیلئے کیسے اپنے فون کا سرچ ٹول استعمال کرتےہیں۔

جزوی معلومات کےذریعے اور جزوی ڈیجیٹل کوچ کی حیثیت سے بیکن سوالات کے جوابات دیتاہے اور ایسی سرگرمیوں کا مشورہ دیتا ہے جن میں طلبا دلچسپی رکھتے ہوں۔ وہ طلبا کے مزاج کی جانچ پڑتال کرتاہے اور کلاس ورک میں ان کی مدد کرتا ہے۔ اگر ڈیجیٹل اسسٹنٹ کو پتہ چلتاہے کہ کوئی طالب علم جدوجہد کر رہا ہے تو وہ یونیورسٹی کے عملے کے ممبر کو الرٹ بھیج سکتا ہے جو پھر اس طالب علم کو مدد کی پیشکش کرسکتا ہے۔ اس طرح بیکن نامی اسسٹنٹ ہر طالب علم کویونیورسٹی میں ایڈجسٹ ہونے اور ان کی مشکلات میں ان کوفوری تعاون فراہم کرنے کیلئے تیار رہتاہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ اس طرح طلبا کے یونیورسٹی چھوڑنے کی شرح میں کمی واقع ہوگی۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ دنیا ان ہنرمند نوجوانوں سے بھری پڑی ہے، جن کے پاس روشن خیالات ہیں اور وہ بہتر دنیا کی تشکیل کی دلّی خواہش رکھتے ہیں لیکن اکثریت کے پاس مہارت حاصل کرنے والی تربیت، ٹیکنالوجی یا ایسے لیڈرز تک رسائی نہیں ہے جوانہیں بہتر سے بہترین بنا سکیں۔ آج ہمیں مصنوعی ذہانت پر مبنی سروسز پروگرام اپنانے چاہئیں جو نوجوانوں کو مواقع فراہم کررہے ہیں جن کی مدد سے وہ اس دنیا کو بہتر سے بہترین کی راہ پر گامزن کرسکتے ہیں۔ اسی لیےاگر ہمیں آگے بڑھنا ہے تو اصل ذہانت کے ساتھ ساتھ مصنوعی ذہانت کے استعمال کو وسیع کرنا ہوگا۔

تازہ ترین