• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
— فائل فوٹو
— فائل فوٹو

برطانوی شہزادہ ہیری کے امریکی ویزا کی قانونی حیثیت پر ایک بڑا تنازع کھڑا ہوگیا ہے جس کی گونج نہ صرف امریکی عدالتوں میں سنائی دے رہی ہے بلکہ سیاسی ایوانوں میں بھی یہ موضوع شدت اختیار کر رہا ہے۔

یہ معاملہ مزید سنجیدہ اس وقت ہوا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی انتخابی مہم کے دوران بارہا کہا کہ اگر وہ دوبارہ منتخب ہوئے تو وہ ہیری کے ویزا کے معاملے میں کسی قسم کی نرمی نہیں برتیں گے۔

اس تنازع کا مرکز ’ہیریٹیج فاؤنڈیشن‘ کا دائر کردہ وہ مقدمہ ہے جس میں امریکی محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی (DHS) سے انکا مطالبہ ہے کہ وہ شہزادہ ہیری کے ویزا کی تفصیلات عام کریں تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ آیا انہیں کسی خاص رعایت کے تحت امریکا میں رہائش کا ویزا دیا گیا تھا یا نہیں۔

یہ مقدمہ ڈسٹرکٹ آف کولمبیا کی وفاقی عدالت میں زیر سماعت ہے، جہاں جج کارل جے نکولس 5 فروری کو اس کیس کی سماعت کریں گے، اس اہم عدالتی کارروائی میں فیصلہ کیا جائے گا کہ آیا DHS کو ہیری کے ویزا کی تفصیلات جاری کرنی چاہئیں یا نہیں۔

اگر عدالت ’ہیریٹیج فاؤنڈیشن‘ کے حق میں فیصلہ دیتی ہے تو اس سے شہزادہ ہیری کے امریکا میں مستقبل پر سنگین سوالات کھڑے ہو سکتے ہیں۔ 

یہ تنازع اس وقت شدت اختیار کر گیا تھا جب شہزادہ ہیری نے اپنی کتاب ’اسپیئر‘ اور مختلف انٹرویوز میں اعتراف کیا کہ انہوں نے ماضی میں کوکین، بھنگ اور میجک مشرومز جیسی منشیات استعمال کی تھیں لیکن امریکی امیگریشن قوانین کے مطابق اگر کسی شخص نے ویزا درخواست میں اپنے منشیات کے استعمال کے بارے میں غلط بیانی کی یا اسے چھپایا تو اس کا ویزا منسوخ ہوسکتا ہے اور اسے ڈی پورٹ بھی کیا جا سکتا ہے۔

اس مقدمے میں امریکی محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی کا مؤقف یہ ہے کہ ’ہیریٹیج فاؤنڈیشن‘ کے پاس حکومت کے کسی غیر قانونی اقدام کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے، لہٰذا شہزادہ ہیری کی پرائیویسی کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے ویزا کی تفصیلات جاری نہیں کی جا سکتیں تاہم فاؤنڈیشن کا دعویٰ ہے کہ عوام کو جاننے کا یہ حق حاصل ہے کہ آیا شہزادہ ہیری کو امریکا میں قیام کے لیے کوئی خصوصی رعایت دی گئی تھی یا نہیں۔

یہ تنازع اس وقت مزید سنگین ہوگیا تھا جب ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک برطانوی اخبار ’دی ایکسپریس‘ کو دیے گئے انٹرویو میں دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ میں ہیری کی کوئی مدد نہیں کروں گا۔

ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہوں نے ملکہ الزبتھ کو دھوکا دیا اور یہ ناقابل معافی ہے، اگر یہ معاملہ میرے اختیار میں آیا، تو وہ خود اپنے انجام کے ذمہ دار ہوں گے۔

ٹرمپ کے اس بیان کے بعد یہ واضح ہو گیا تھا کہ اگر وہ دوبارہ صدر کا عہدہ سنبھالتے ہیں تو وہ شہزادہ ہیری کے ویزا کو منسوخ کرنے کی راہ ہموار کر سکتے ہیں اور وہ اب برسراقتدار ہیں اور اب جو سماعت ہونے جارہی ہے اس میں ڈی ایچ ایس کا محکمہ ان کے ماتحت ہے۔

شہزادہ ہیری کا یہ معاملہ صرف امریکا تک محدود نہیں رہا بلکہ برطانیہ میں بھی اس پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔

برطانیہ کی سابق وزیر داخلہ سویلا بریورمین نے بھی ٹرمپ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ شہزادہ ہیری کے ویزا کی تفصیلات جاری کریں۔

انہوں نے حال ہی میں ایک ویڈیو پیغام میں ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ امریکی عوام کو جاننے کا حق ہے کہ یہاں کیا ہوا، شہزادہ ہیری ایک عام شہری ہیں جنہوں نے امریکا میں داخلہ لیا، ہمیں جاننے کی ضرورت ہے کہ آیا انہوں نے داخلے کے قوانین کی خلاف ورزی کی اور اگر ایسا ہوا تو اس کے ذمہ داروں کو جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیے۔

اب 5 فروری کو اگر عدالت ’ہیریٹیج فاؤنڈیشن‘ کے حق میں فیصلہ دیتی ہے اور ثابت ہو جاتا ہے کہ ہیری نے ویزا درخواست میں غلط بیانی کی تھی، تو انہیں ملک بدر (ڈی پورٹ) کیا جا سکتا ہے۔ اس صورت میں، انہیں کینیڈا یا کسی اور ملک منتقل ہونا پڑے گا، یا پھر برطانیہ واپس جانا ہوگا۔

واضح رہے کہ شہزادہ ہیری اس وقت ’Invictus Games Foundation‘ اور ’Sentebale‘ جیسے خیراتی اداروں کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور وہ ’BetterUp Inc‘ میں بطور چیف امپیکٹ آفیسر بھی خدمات انجام دے رہے ہیں جو ذہنی صحت اور ذاتی ترقی کے شعبے میں کام کرتی ہے۔

اگر ان کا ویزا منسوخ ہوتا ہے تو یہ ان کے کیریئر اور امریکا میں مستقبل کے لیے ایک بڑا دھچکا ہوگا۔

اس ضمن میں جنگ/ جیو نے امریکا میں ڈیلس کے معروف قانون دان، امیگریشن اور دیگر قانونی امور کے معروف اٹارنی اور امریکی جیل میں قید ڈاکٹر عافیہ کے وکیل نعیم سکھیا سے رابطہ کیا اور اس مقدمہ سے متعلق ان کی رائے معلوم کی تو ان کا کہنا تھا کہ امیگریشن قوانین سب کے لیے برابر ہیں چاہے وہ کسی بھی شاہی خاندان سے تعلق رکھتے ہوں۔

نعیم سکھیا کا کہنا ہے کہ اگر ہیری کو کسی غیر قانونی رعایت کے تحت ویزا دیا گیا، تو یہ امریکی قانون کی سنگین خلاف ورزی ہوگی اور اس کے نتیجے میں ان کی امریکا میں رہائش کا حق ختم ہو سکتا ہے جبکہ آنے والی سماعت بنیادی طور پر اس بات کا تعین کرنے کے لیے ہے کہ آیا ریکارڈ کو عوام کے لیے جاری کیا جائے یا اسے نجی رکھا جا سکتا ہے۔ یہ اسے اس ذمہ داری سے بری نہیں کرتا کہ اگر انہوں نے اپنی درخواست میں جھوٹ بولا یا متعلقہ حقائق کو درست طور پر ظاہر نہیں کیا۔ ایسی صورت میں ان کے ویزا اسٹیٹس کے خلاف منفی کارروائی اب بھی کی جا سکتی ہے۔

5 فروری 2025ء کو ہونے والی عدالتی سماعت میں صرف یہ فیصلہ ہوگا کہ DHS شہزادہ ہیری کے ویزا کی تفصیلات جاری کرے گا یا نہیں۔

اگر عدالت ’ہیریٹیج فاؤنڈیشن‘ کے حق میں فیصلہ دیتی ہے، تو یہ ہیری کے لیے قانونی مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ دوسری جانب ٹرمپ کے دوبارہ صدر بننے کے بعد یہ معاملہ مزید پیچیدہ ہو گیا ہے۔

اگر عدالت کے فیصلے کے بعد DHS نے ہیری کے ویزا پر نظرثانی کی، تو انہیں امریکا میں مزید قیام کے لیے قانونی طور پر سخت مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔

شہزادہ ہیری کا امریکا میں مستقبل اس وقت خطرے میں دکھائی دے رہا ہے، اور اگر ان کے ویزا میں کوئی بے ضابطگی ثابت ہو جاتی ہے، تو وہ اپنی امریکی زندگی کھو سکتے ہیں جبکہ میگھن مارکل اور ان کا بیٹا امریکی شہری ہیں، لیکن ان کی وجہ سے وہ بھی متاثر ہونگے۔

بین الاقوامی خبریں سے مزید