• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

مشرقی حُسن سے مالا مال، پُروقار اداکارہ ’’صبیحہ خانم‘‘

مایہ ناز اداکارہ، پاکستان کی پہلی سپر اسٹار، صبیحہ خانم، ہفتہ کی صبح امریکا میں رضائے الٰہی سے انتقال کرگئیں۔ یہ خبر نہایت غم اور الم کے ساتھ سوشل میڈیا پر دیکھی، سنی اور پڑھی گئی، موت برحق ہے اس سے کوئی بشر بھی نہیں بچ سکتا۔ معمر ترین اس خاتون اداکارہ کی اس خبر کیساتھ ان کی فنکارانہ زندگی کے کئی پہلو اور کئی تصاویر ماضی کی حسین درخشاں سنہری یادوں کے دریچے یکے بعد دیگر ذہن کے پردے پر ان کی فلموں کے مناظر کے ساتھ کھلنے لگے، ان دریچے سے ان کے فنی کیریئر کے بے شمار لازوال کردار ان کی عمدہ اور یادگار اداکاری کے ساتھ اپنی خُوب صورت یادوں کے ساتھ چھا گئے ۔

صبیحہ خانم اُس دور کی پہلی ہیروئن تھیں، جب پاکستانی سنیما پر کام کرنے والی زیادہ تر ہیروئنز متحدہ ہندوستان کی فلموں میں بھی کام کرچکی تھیں۔ وہ پہلی ہیروئن تھیں، جو پاکستانی سرزمین پر پیدا ہوئیں اور اپنے فلمی کیریئر کا آغاز بھی اسی سرزمین سے کرکے خاتون اول کا خطاب پایا۔ 1950ء میں بہ طور اداکارہ پہلی بار انہوں نے پنجابی فلم ’’بیلی‘‘ سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا، جس کے ہدایت کار مسعود پرویز تھے۔ یہ حُسن اتفاق ہے کہ ان کے خاوند اداکار سنتوش کمار کی بھی یہ پہلی پاکستانی فلم تھی۔ اس فلم میں صبیحہ کا کردار ثانوی تھا۔ فلم کی ہیروئن شاہینہ تھیں۔ ’’بیلی‘‘ سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کرنے والے ان دونوں ستاروں کا تعلق آگے چل کر اس قدر مضبوط ہوگیا کہ دونوں جیون ساتھی بن کر کام یاب اور پُروقار ازدواجی زندگی گزارنے لگے۔ 

سنتوش کمار 11جون 1982ء میں اپنی بیگم صبیحہ کو داغِ مفارقت دے گئے۔ ان کے جانے کے بعد وہ ان کی بیوہ بن کر باقی زندگی تادم گزارتی رہیں۔ صبیحہ خانم 16دسمبر 1938ء کو پنجاب کے شہر گجرات میں پیدا ہوئیں۔ اُن کی والدہ اقبال بیگم اور والد محمد علی ماہیا نے محبت کی شادی کی تھی۔ والدہ کا گھرانہ ایک متمول زمیندار تھا، جب کہ ان کے والد ایک کوچوان تھے۔ والد اور والدہ دونوں فنی دُنیا سے وابستہ رہے۔ ان کی والدہ نے متحدہ ہندوستان کی فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ فن کار ماں باپ کی اس بیٹی مختار بیگم، صبیحہ خانم بننے کے لیے کئی نشیب و فراز سے گزرنا پڑا۔ ابتدائی حالات کے دُکھ، والدہ کی موت کے بعد ان کی زندگی غم و یاس کی تصویر بنی رہیں، کم سن اور معصوم مختار صرف نام کی مختار نہیں، ان کے والد نےکم عمری میں ہی انہیں اپنے اداکار دوست سلطان کھوسٹ (معروف اداکار عرفان کھوسٹ کے والد) کے توسط سے ریڈیو پر لے گئے، نو برس کی اس لڑکی نے جب ریڈیو لاہور پر اپنی مترنم آواز میں یہ نظم پڑھی’’؎ اے مائوں بہنوں بیٹیوں دنیا کی عزت تم سے ہے‘‘؎ تو سُننے والی تمام سماعتیں محو ہوگئیں۔ 

سلطان کھوسٹ اس بچی کے اندر چھپی ہوئی ایک بڑی فن کارہ کو بھانپ چکے تھے۔ فلمی دُنیا سے متعارف ہونے سے کچھ عرصےقبل لاہور کے ایک اسٹیج ڈرامے ’’بت شکن‘‘ میں انہیں ہیروئن کا کردار ملا۔ اس ڈرامے کو معروف فلمی صنعت فلم ساز و ہدایت کار عزیز میرٹھی نے لکھا تھا اور اس اسٹیج ڈرامے کو نفیس خلیل نے ڈائریکٹر کیا تھا۔ اس ڈرامے کی کاسٹ میں پہلی بار ان کا نام صبیحہ ایم اے لکھا گیا تھا۔ سلطان کھوسٹ نے مختار کو صبیحہ بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ’’بت شکن‘‘ ڈرامے کو دیکھنے کے لیے اُس وقت کی متعدد فلمی شخصیات آئیں، جن میں حکیم احمد شجاع، انور کمال پاشا، مسعود پرویز اور سبطین نسلی کے نام شامل تھے۔ ان لوگوں نے اس ڈرامے میں صبیحہ کی اداکاری دیکھنے کے بعد انہیں فلموں میں کام کرنے کے لیے ان کے والد کی رضامندی حاصل کی۔ پہلی بار فلمی کیمرے کا سامنا انہوں نے ہدایت کار شکور قادری کی فلم ’’ہماری بستی‘‘ کے ایک منظر کو فلماتے ہوئے کیا، لیکن ’’ہماری بستی‘‘ سے قبل ان کی فلم ’’بیلی‘‘ ریلیز ہوگئی۔ ’’ہماری بستی‘‘ میں اداکاری کے ساتھ انہوں نے گلوکاری بھی کی۔ 

یہ دونوں فلمیں 1950ء میں ریلیز ہوئیں۔ اسی سال ہدایت کار انور کمال پاشا کی پہلی کام یاب پاکستانی اردو فلم ’’دو آنسو‘‘ ریلیز ہوئی، جس میں صبیحہ اور سنتوش کمار نے لیڈنگ رول کیے۔ بہ طور ہیرو ہیروئن یہ ان دونوں کی پہلی فلم تھی۔ اس فلم کے دو ہدایت کار تھے ۔ انور کمال پاشا اور مرتضیٰ جیلانی اس فلم سے پاکستان کی فلمی صنعت نےاپنی کام یابی کا سفر شروع کیا۔ 1951ء میں پہلی بار بہ طور سولو ہیروئن صبیحہ خانم کو فلم ساز و ہدایت کار امین ملک نے اپنی فلم ’’پنجرہ‘‘ میں اداکار مسعود کے مدِمقابل ہیروئن کاسٹ کیا۔ یہ پاکستانی فلمی صنعت کا ابتدائی دور تھا ، جب چند ہیروئنز اور چندہیرو کام کرہے تھے ۔ 

صبیحہ خانم جیسی حسین و جمیل اداکارہ کوفلم بینوں نے بے حد پسند کیا۔ ان کی آمد نے باکس آفس کو بھی سپر ہٹ فلمیں دیں۔ 1953ء میں نمائش ہونےوالی انور کمال پاشا کی یادگار کام یاب فلم ’’غلام‘‘ وہ پہلی فلم تھی، جس میں باکس آفس پر صبیحہ کو سپر اسٹار کا اعزاز دیا۔ اس فلم میں ان کے ہیئر اسٹائل کو خواتین فلم بین نے بے حد پسند کیا۔ اس فلم میں ان کے بالوں کے ایک خوب صورت اسٹائل کو اُس دور کی خواتین نے اپنایا۔ بیوٹی پارلرز میں خواتین صبیحہ کی طرح ہیئر اسٹائل بنانے پر اصرار کرتی تھیں ۔

 پاکستانی اسکرین کی وہ پہلی اداکارہ تھیں،جن کے بالوں کی ’’لٹ‘‘ کو نہ صرف فلموں میں خصوصی طور پر فوٹو گرافرز نے ایکسپوز کیا، بلکہ فلمی شاعروں نے اُس پر خُوب صورت نغمات میں تحریر کیے، جس کی مثال 1967ء میں نمائش ہونے والی فلم ’’سوال‘‘ سے دی جاسکتی ہے، جس میں نغمہ نگار فیاض ہاشمی کالکھا ہوا یہ خوب صورت نغمہ؎’’لٹ الجھی سلجھا جارے بالم‘‘ موسیقار رشید عطرے کی دُھن میں آج بھی صبیحہ کی اس خوب صورت لٹ کو سازوں اور لفظوں کے خراج پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ پنجابی فلم ’’ناجی‘‘ کے ایک گانے ’’میرا جیوے ڈھولا‘‘ میں فوٹو گرافر نے جس عمدہ اور دل کش انداز میں ان کی لٹ کو ایکسپوز کیا، فلمی تاریخ میں اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔

1954ء میں ہدایت کار دائود چاند کی رومانی فلم ’’سسی‘‘ میں صبیحہ خانم کا عنوانی کردار نے افسانوی ’’سسی‘‘ کو زندہ جاوید بنا دیا۔ اداکار سدھر ان کے مقابل ہیرو آئے۔ اس فلم کو پہلی سلور جوبلی فلم کا اعزاز حاصل ہوا۔ ایورریڈی پکچرز کی اس فلم کے بعد انہوں نے’’ عشق لیلیٰ‘‘ میں لیلیٰ اور فلم ’’سوہنی ‘‘ میں سوہنی کے رومانی کردار ادا کرکے ایک نیا ریکارڈ بنایا۔ فلمی تاریخ کے صفحات پر ان کا فن سسی، لیلیٰ اور سوہنی کے کرداروں میں ہمیشہ محبت کی خُوش بو بکھرتے رہیں گے۔

صبیحہ خانم نے اپنے طویل فلمی کیریئر میں ہر طرح کے کردار ادا کیے، بلاشبہ وہ سلور اسکرین کی ایک سب سے بڑی لیجنڈ وراسٹائل آرٹسٹ تھیں ، ان کی بےشمار فلمیں ان کی کردار نگاری کی وجہ سے کلاسیک درجہ رکھتی ہیں، جن کی تفصیل میں جائیں تو شاید یہ صفحات کم پڑ جائیں گے، لیکن مختصر طور پر چند ایک فلموں کا تذکرہ کریں گے۔

1954ء میں ہدایت کار انور کمال پاشا کی سپرہٹ فلم ’’گمنام‘‘ میں، صبیحہ نے پگلی کا یادگار لازوال کردار کیا، جس دور میں یہ فلم بن رہی تھی، تو وہ شاہ جمال کے علاقے میں رہتی تھیں۔ اپنے اس کردار میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے وہ بند کمرے میں کافی دیر تک پگلی کےکردار کی ریہرسل کیا کرتی تھیں۔ اس میں وہ مخصوص انداز میں ہنستی ہیں، جب وہ ریہرسل کے دوران ہنسا کرتی تھیں، تو محلے کے لوگ یہ سمجھنے لگے کہ شاید اس مکان میں کوئی پگلی رہتی ہے۔ یہ اُن کی کردار نگاری کی سچائی تھی، جو فلم میں آنے سے قبل لوگوں میں حقیقت بن کر زیر بحث آنے لگا۔ لوگ فلم’’گمنام‘‘ کی پگلی کو بھلا نہ پائے۔

1985ء میں جب صبیحہ خانم امریکا گئیں تو ہوسٹن میں ہونے والے ایک ثقافتی پروگرام میں گئیں تو حاضرین کی بڑی تعداد نے اُن سے فلم گمنام کی ’’پگلی‘‘ کی طرح ہنسنے کی فرمائش کی۔ اس فلمی پروگرام میں انہوں نے اس فلم کا سدا بہار گیت جو فلم میں ان پر فلمایا گیا تھا، ؎تُو لاکھ چلی رے گوری تھم تھم کر پائل میں ہیں گیت چھم چھم کے سنا کرحاضرین سے خوب داد پائی۔ 1955ء میں انور کمال پاشا کی ایک اور نغمانی سپرہٹ فلم ’’قاتل‘‘ میں ان کا کردار ایک شوخ و چنچل غریب لڑکی کا تھا، جس کا خاوند اپنی غربت دور کرنے کے لیے ایک امیرزادی سےدوسری شادی کرنے کے بعد اپنی اس غریب بیوہ کو زہر دے دیتا ہے، لیکن قدرت اُسے زندہ رکھ کر اپنے شوہر کے سامنے ایک بار پھر ایک وفادار خادمہ بناکر لاتی ہے ۔ ’’قاتل‘‘ اور’’گمنام‘‘ کی کام یابی نے انہیں اُس دور کی سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی اداکارہ بنا دیا۔ ان کی فلمی جوڑی سنتوش کمار کے ساتھ لوگوں نے زیادہ پسند کی۔ 

تاہم سنتوش کے بعد سدھر کے ساتھ بھی ان کی فلمیں کام یاب رہیں، جن میں ’’سسی‘‘، ’’طوفان‘‘ ، ’’چھوٹی بیگم‘‘ ، ’’دُلابھٹی‘‘ کے نام خاص طور پر شامل ہیں۔ ’’قاتل‘‘ کے بعد صبیحہ سنتوش کی جوڑی میں ’’انتقام‘‘، ’’حمیدہ‘‘ اور’’ سرفروش‘‘ نے ملک گیر کام یابی حاصل کی۔ فلم’’حمیدہ ‘‘ کی شوٹنگ کے دوران صبیحہ اور سنتوش کمار رومانی فلمی مناظر فلماتے ہوئے حقیقی رومان میں داخل ہوگئے، حالاں کہ سنتوش کمار شادی شدہ تھے، ان کی بیگم جمیلہ لاہور کے معروف حکیم محمد حسین کی صاحب زادی تھیں، اس کے باوجود صبیحہ ان کی محبت میں آگے بڑھتے بڑھتے ان کی شریک حیات بن گئیں۔

1957ء میں سلور اسکرین کے بینر تلے بننے والی سپرہٹ کاسٹیوم فلم ’’سردار‘‘ بھی صبیحہ سنتوش کی ایک کام یاب فلم ثابت ہوئی۔ اِسی سال فلم ساز و ہدایت کار ایس فضلی کی یادگار معاشرتی فلم ’’آنکھ کا نشہ‘‘ میں صبیحہ نے سدھر اور مسرت نذیر کی بیٹی کا خوب صورت اور یادگار کردار نبھایا۔ پہلی نگار ایوارڈ یافتہ فلم ’’سات لاکھ‘‘ میں اسی سال ریلیز ہوئی، جس میں ایک بار پھر صبیحہ سنتوش کی جوڑی کو عوام نے بے حد پسند کیا۔ اس فلم میں بہترین اداکارہ کا نگار ایوارڈ حاصل کرکے صبیحہ خانم پہلی نگارا یوارڈ یافتہ اداکارہ تسلیم کی گئیں ۔ اِسی سال جب وہ یورپ کےدورے پر گئیں، تو بھارت کے مایہ ناز ہدایت کار اور فلم میکر محبوب خان نے انہیں اپنی ایک فلم میں کام کرنے کی پیش کش کی۔ صبیحہ نے ایک ہی لمحے میں معذرت کرتے ہوئے کہا میرا فن میرے ملک کی امانت ہے۔ 

میں اس امانت میں خیانت نہیں کروں گی۔ وہ پہلی نگار ایوارڈ یافتہ اداکارہ ہونے کے ساتھ وہ پہلی اداکارہ تھیں، جنہوں نے 1959ء میں ہدایت کار ابن اے اختر کی فلم ’’مسکراہٹ‘‘ میں ڈبل رول کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ ہیروئن کے علاوہ جب وہ پہلی بار 1962ء میں ہدایت کار حسن طارق کی سپرہٹ فلم ’’شکوہ ‘‘ میں ینگ ٹو اولڈ کردار میں آئیں، تو لوگ ہیروئن صبیحہ کے ساتھ اُس بوڑھی مجبور ماں کو بھی نہ فراموش کر پائے، جس نے فلم ’’شکوہ‘‘ میں اپنی جذباتی اداکاری کے انمنٹ نقوش چھوڑے۔ اس فلم میں وہ اداکار درپن جو حقیقی زندگی میں ان کے دیور تھے۔ ان کی ماں کے کردار میں نظر آئیں۔ اس فلم میں ان پر فلمایا ہوا یہ گیت ’’؎آج محفل سجانے کو آئی‘‘ آج بھی مقبول ہے۔ 1964ء میں ہدایت کار حسن طارق کی ایک اور فلم ’’کنیز‘‘ کا شمار بھی ان کی لازوال فلم کے طور پر ہوتا ہے ۔ ’’شکوہ‘‘ کے بعد ایک بار پھر اس فلم میں انہوں نے ینگ ٹو اولڈ کردارا نبھایا۔ محمد علی اور وحید مراد کی مظلوم ماں کے کردار کو فلم بین آج بھی فراموش نہیں کر پائے۔ 1969ء میں اپنی ذاتی فلم ’’پاک دامن‘‘ میں صبیحہ نے ڈبل رول میں ایک مرتبہ پھر چونکا دینے والی عمدہ کردار نگاری کا مظاہرہ کیا۔ 

اس میں ایک بڑی عورت اور دوسری وفاشعار مشرقی عورت کےدہرےکردار کو انہوں نے نہایت عمدگی سے نبھایا۔ نورجہاں کی آواز میں ریکارڈ کیا ہوا یہ گانا؎ کیا ’’خبر تھی تیری محفل‘‘ اس فلم کی ہائی لائٹ ثابت ہوا۔ فلم کے ہدایت کار حسن طارق تھے۔ جنہوں نے ہمیشہ صبیحہ کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی فلموں میں اہم کردار لکھوائے۔ ’’دیور بھابھی‘‘، ’’انجمن‘‘، ’’تہذیب‘‘، ’’اک گناہ اور سہی‘‘ اور ’’سنگدل‘‘ جیسی بلاک بسٹر فلموں میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ حسن طارق کے بعد ان کے دیور ایس سلیمان کی چند فلموں میں صبیحہ خانم نے اپنی کردار نگاری کے جو روشن جوہر پیش کیے، اُن کی روشنی اُن کرداروں میں ہمیشہ جگمگاتی رہے گی۔ ایس سلیمان کی فلم ’’محبت‘‘، ’’تیری صورت میری آنکھیں‘‘، ’’انسانیت‘‘ اور ’’مس ہپی‘‘ کی ممتابھری ماں کے ان کرداروں میں صبیحہ خانم ہمیشہ یاد رہیں گی۔ 1978ء میں ایس سلیمان کی کامیڈی فلم ’’ابھی تو میں جوان ہوں‘‘ میں صبیحہ نے ایک بار پھر اپنی بے ساختہ شوخ اور مزاحیہ اداکاری سے فلم بینوں کے دل جیت لیے تھے۔ اس سوشل مزاحیہ فلم سے قبل وہ فلم ساز و ہدایت کار قوی کی فلم ’’روشنی‘‘ میں بڑی خالہ کے کردار میں اپنی مزاحیہ اداکاری کے جوہر دکھا چکی تھیں۔

صبیحہ خانم نے جن چند نامور ہیروز کے مدمقابل اداکاری کے جوہر بہ طور ہیروئن دکھائے، ان میں یوسف خان کے ساتھ فلم ’’پرواز‘‘، ’’مسرت‘‘ اداکار اسلم پرویز کے ساتھ ’’آس پاس‘‘، ’’شیخ چلی‘‘، ’’پاسبان‘‘، ’’آنکھ کا نشہ‘‘، اداکار کمال کے ساتھ ’’آج کل، اداکار اعجاز کے ساتھ ’’دل میں تو‘‘، ’’دیوانہ‘‘، اداکار حبیب کے ساتھ ’’ایاز‘‘ جب کہ اداکار شاہد کے ساتھ ’’ابھی تو میں جوان ہوں‘‘ کے نام شامل ہیں۔

تقریباً 215ریلیز شدہ فلموں میں کام کرنے والی یہ مایہ ناز عہد آفرین اداکارہ ایک عرصے سے امریکا میں اپنے بچوں کے پاس تھیں۔ 13جون کی صبح وہاں رضائے الٰہی سے وفات پا گئیں۔ صبیحہ خانم سنہرے دور کی سب سے بڑی اور لیجنڈ اسٹار کے طور پر اپنی فلموں کےذریعے ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ ان لمحات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ وہ اپنے جوہر اداکاری کی ایک ایسی داستان رقم کرگئیں، ان کے ذکر کے بنا پاکستانی سنیما کی تاریخ کبھی مکمل نہ ہوگی۔

صبیحہ خانم کے خُوب صورت چہرے اور ان کے فن کی آب و تاب، ایک شان دار ماضی ذہنوں اور آنکھوں پر چھایا رہے گا۔ فن سے محبت کرنے والے ذہن فلمی دنیا کی اس خوب صورت ’’سسی‘‘، محبت کرنے والی سوہنی، دنیا بھر میں محبت کے پیغام کو عام کرنے والی لیلیٰ کےکرداروں میں اُنہیں ہمیشہ زندہ رکھیں گے۔ اللہ مغفرت فرما کر اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین۔

تازہ ترین
تازہ ترین