• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: کیا بعض دنوں میں ناخن تراشنے کی فضیلت اور بعض دنوں میں اس کی ممانعت آئی ہے ؟

جواب: حضرت ابوہریرہ ؓبیان کرتے ہیں : جو ہفتے کے دن ناخن ترشوائے ،اُس سے بیماری نکل جائے گی ، شفا داخل ہوگی اور جو اتوار کے دن ترشوائے ،اس سے فاقہ دور ہوگا اور تونگری آئے گی اور جو پیر کے دن ترشوائے ،اس سےجنون جائے گا اور صحت آئے گی اورجو منگل کے دن ناخن ترشوائے ،اس سے مرض جائے گا اور شفا آئے گی جو بدھ کے دن ترشوائے ،اس سےوسواس اور خوف نکلے گا اورامن وشفا آئے گی اور جو جمعرات کے دن ترشوائے ،اس سے جذام جائے اور عافیت آئے اورجو جمعہ کے دن ترشوائے ، رحمت آئے گی اورگناہ جائیں گے ،(الموضوعات لابن الجوزی )اس روایت سے یہ تاثر ملتاہے کہ جس دن بھی ناخن کاٹیں ،خیر کا باعث ہے۔

امام اہلسنّت امام احمد رضا قادری ؒسے سوال ہوا :’’طحطاوی حاشیہ درمختار جلد رابع میں ہے:ترجمہ:’’ بعض آثار میں بدھ کے دن ناخن کترنے کی ممانعت آئی ہے کہ اس سے مرض برص (پھلبہری)پیدا ہوتاہے،( حاشیہ الطحطاوی علیٰ الدرالمختار) ‘‘۔اس کی سند کیا ہے ، یہ روایت کس درجہ کی ہے ، بظاہر یہ روایت دیلمی کی اِس روایت کے مُعارِض ہے:ترجمہ:’’جس نے بدھ کے روز ناخن کاٹے ،اس سے شیطانی وسوسے اور خوف نکل جائیں گے اوراس میں امن اور شفا داخل ہوجائیں گی۔ ان دونوں روایتوں میں تطبیق یا ترجیح کی کیا صورت ہے اور بدھ کے دن ناخن تراشنا کیسا ہوگا؟ممانعت کی صورت میںحافظ ابن حجر ؒکے اس قول کی صحت کی کیا صورت ہوگی:ترجمہ:’’جس حال میں بھی ضرورت پڑے ،ناخن کاٹنے مستحب ہیں ‘‘۔ اور مستحب ہونے کی صورت میں حافظ ابن حجرؒ کے اس قول کی توجیہ کیا ہوگی : ترجمہ:’’ناخن تراشنے کی ترتیب کیاہو اور آیا اس کے لیے کوئی دن مقرر ہے ؟ اس بارے میں حضور اکرم ﷺ سے کچھ ثابت اور مروی نہیں ہے‘‘۔آپ جواب میں لکھتے ہیں:’’اصل مسئلہ یہی ہے کہ وہ’’کَیْفَ مَااِتَّفَقَ‘‘ مستحب ومسنون ہے یعنی جب ضرورت محسوس ہو یا فرصت ملے ،کاٹ لے ، دن کی تعیین یا منع میں کوئی حدیث ثابت نہیں ہے ، یَومُ الَٔارْبِعَآء میں ممانعت واستحباب کی دونوں حدیثیں ضعیف ہیں، اگر بدھ وجوب کے دن آجائے ،مثلاً انتالیس دن سے نہیں تراشے تھے ،آج بدھ کو چالیسواں دن ہے، اگر آج بھی نہیں تراشتا تو چالیس دن سے زائد ہوجائیں گے اور یہ ناجائز ومکروہ تحریمی ہے ،جیساکہ ’’قُنیہ‘‘ اور ’’عالمگیری‘‘ وغیرہ میں ہے ، تواس پر واجب ہوگا کہ بدھ کے دن تراشے، لیکن اگرصورتِ حال ایسی ہے کہ تاخیر کی گنجائش ہے ، تو بدھ کے دن نہ تراشنا مناسب کہ ممکنہ نقصان سے بچنے کو ترجیح دی جاتی ہے اور اس کی بابت حدیث اگر چہ ضعیف ہے، مگر حکمت کے اعتبار سے صحیح بخاری کی ایک حدیث صحیح اس کی مُؤَیّد ہے۔امام ابنُ الحاج ّمکی ؒنے بدھ کے دن ناخن تراشنے چاہے، پھر خیال کیا کہ حدیث میں ممانعت آئی ہے ،پھر سوچا یہ سنت حاضرہ ہے اور حدیث ضعیف، تراش لئے فوراً برص میں مبتلا ہوگئے۔ 

رات کو رسول اللہ ﷺ کی زیارتِ اَقدس سے مشرّف ہوئے اور بیماری کی بابت فریاد کی، ارشاد ہوا :کیا تمہیں حدیث نہ پہنچی تھی؟، عرض کی:’’ حضور ،میں نے خیال کیا کہ یہ سنت حاضرہ ہے اور حدیث ضعیف‘‘، ارشاد ہوا :’’کیا تم نے ہمارا فرمان نہ سنا تھا ،پھر دستِ اَقدس ان کے بدن پر مَس فرمایااوروہ فوراً شفایاب ہوگئے ،نیند سے اٹھے تو اچھے تھے، (فتاویٰ رضویہ، جلد22)‘‘۔

تازہ ترین