دلوں کا حال اللہ ہی کو معلوم ہوتا ہے۔لیکن پاکستانی کرکٹ ٹیم کی ماضی کی تاریخ کو سامنے رکھیں تو ہمیں کئی ایسے تلخ اور نا قابل یقین حقائق سننے کو ملتے ہیں جس سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔چند ماہ قبل سابق کپتان اور مشہور بیٹسمین محمد یوسف نے دعوی کیا تھا کہ یونس خان کی کپتانی کے خلاف جو بغاوت ہوئی تھی اس کے ماسٹر مائنڈ مصباح الحق تھے۔پاکستانی ٹیم کا بیٹنگ کوچ بننے کے بعد جب یونس خان سے محمد یوسف کے اس دعوے کے بارے میں جاننے کی کوشش کی گئی اس پر یونس خان کہتے ہیں ’میں ماضی کی باتوں کو بھول کر آگے بڑھنے پر یقین رکھتا ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ ماضی میں جو کچھ ہوا اس میں ان سے زیادہ میری اپنی غلطی ہو۔ ماضی میں کیا کچھ ہوا وہ میں بھول چکا ہوں۔
اگر نہ بھولا ہوتا تو آج یہاں موجود نہ ہوتا۔ ظاہر سی بات ہے کہ بیٹنگ کوچ کے طور پر میرا نام ہیڈ کوچ مصباح الحق کے سامنے رکھا گیا ہو گا جنھوں نے منظور کرنے میں دیر نہیں لگائی ہو گی۔یونس خان کمال مہارت سے سوال کو نظر انداز کرکے آگے بڑھ گئے۔لیکن چند ماہ قبل پاکستان ٹیم کے ایک اور رکن رانا نوید الحسن نے یہ دعوی بھی کیا تھا کہ یونس خان کو ناکام بنانے کے لئے پاکستانی کھلاڑیوں نے جان بوجھ کر خراب کارکردگی دکھائی۔یونس خان کو ناکام بناکر پاکستان ٹیم کو شکست سے دوچار کیا گیا۔
ماضی میں جو کچھ ہوا شاید یونس خان اور مصباح الحق نے تمام تلخیوں کو بھلا دیا ہے۔وہ کبھی بھی انا پرست نہیں رہے ہیں۔ میں نے کبھی بھی انا کا مسئلہ نہیں بنایا۔ آپ کی انا آپ کی پرفارمنس میں ہونی چاہیے اور اسے مثبت انداز میں اس طرح لینا چاہیے کہ اگر مصباح نے سو رنز بنائے ہیں تو مجھے دو سو رنز کرنے ہیں۔ میں اپنی جانب سے یہ یقین دلانے کے لیے تیار ہوں کہ میری وجہ سے کوئی مسئلہ نہیں ہو گا کیونکہ کوچ کا رول خدمت کرنے والے کا ہوتا ہے۔ میرے خلاف جب بھی منفی بیانات آتے تھے تو میں کبھی خود منفی نہیں ہوتا تھا بلکہ تحمل مزاجی سے اس کا تجزیہ کرتا تھا کہ یہ صحیح ہے یا نہیں؟
یہی وجہ ہے کہ دو سابق مایہ ناز کھلاڑی یونس خان اور مصباح الحق ایک بار پھر اکٹھے ہوئے ہیں لیکن اس بار دونوں کو خود بیٹنگ نہیں کرنی بلکہ ہیڈ کوچ اور بیٹنگ کوچ کی حیثیت سے اپنے کھلاڑیوں سے بہترین نتائج لینے ہیں۔یونس خان اس سلسلے میں خاصے پُرجوش دکھائی دیتے ہیں کہ جس طرح ان دونوں نے تین سال قبل ویسٹ انڈیز کے خلاف تاریخی جیت کے ساتھ اپنے بین الاقوامی کریئر کا اختتام کیا تھا، ایک ساتھ کوچنگ کا آغاز بھی اسی طرح جیت سے کریں۔اپنے کرکٹ کیرئیر کے دوران مصباح الحق اور یونس خان کی کامیاب جوڑی نے پاکستان کوٹیسٹ کرکٹ میں کئی اہم فتوحات دلائیں۔
یونس خان اور مصباح الحق کی جوڑی اعداد و شمار کے لحاظ سے ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی بہترین جوڑی ہے۔ ان دونوں نے 53 اننگز ایک ساتھ کھیلتے ہوئے مجموعی طور 3213 رنز بنائے ہیں جن میں 15 سنچری پارٹنرشپ شامل ہیں۔ جو ٹیسٹ کرکٹ میں کسی ایک جوڑی کی جانب سے چوتھی سب سے زیادہ سنچری پارٹنرشپ ہیں۔یونس خان کا کہنا ہے کہ ’میں اپنی حدود میں رہ کر کام کرنے پر یقین رکھتا ہوں۔ چونکہ مصباح الحق ہیڈ کوچ ہیں لہذا میں کوشش کروں گا کہ کھلاڑیوں اور خصوصاً بلے بازوں کو انہی خطوط پر بتاؤں جو مصباح الحق نے اپنی کوچنگ کے سلسلے میں استوار کیے ہیں۔ میں بیٹسمینوں کو کنفیوز نہیں کرنا چاہتا۔
انگلینڈ کے دورے میں یونس خان پاکستان کے بیٹسمینوں میں کونسی روح پھونکیں گے جس سے وہ انگلش سرزمین پر میچ وننگ کارکردگی دیں گے۔ٹیسٹ کپتان اظہر علی نے کا کہنا ہےکہ انگلینڈ کی سیریزمیں دباؤ ہوگا، اس دوران وہ یونس خان کے تجربے سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ذاتی طور پر وہ اسے قابل رشک عمل سمجھتے ہیں کہ ہماری رہنمائی کے لیے ڈریسنگ روم میں مصباح الحق، وقار یونس،یونس خان اور مشتاق احمد پر مشتمل 332 ٹیسٹ میچوں کا مشترکہ تجربہ موجود ہوگا۔ٹیسٹ کرکٹ ٹیم کے نائب کپتان بابر اعظم ان دنوں بہترین فارم میں ہیں۔
انہوں نے گذشتہ 5 ٹیسٹ میچوں میں 102 سے زائد کے اسٹرائیک ریٹ سے رنز بنائے۔ اپریل 2017 میں ان کی یونس خان کے ہمراہ 131 رنز کی شراکت آج بھی مداحوں کے ذہنوں میں نقش ہے۔پاکستان کی ایک روزہ اور ٹی ٹونٹی کرکٹ ٹیم کے کپتان بابراعظم کا کہنا ہے کہ یونس خان ایک لیجنڈ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ یونس خان کی صلاحیتوں کے معترف ہیں خصوصاً جس طرح وہ اپنی اننگز کو طوالت دینے کے لیے منصوبہ بندی کیا کرتے تھے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ ان کے عزم، مزاحمت اور تحمل مزاجی سے بہت کچھ سیکھیں گے۔
بابراعظم نے کہا کہ یونس خان نے پاکستان کے لیے بہت سے کارنامے سرانجام دئیے ہیں اور وہ یونس خان کے ساتھ ڈریسنگ روم شیئر کرنے کو اعزاز سمجھتے ہیں۔ قومی ایک روزہ اور ٹی ٹونٹی کرکٹ ٹیم کے کپتان نے کہا کہ نوجوان کھلاڑیوں پر مشتمل گروپ کی حیثیت سے مصباح الحق اور یونس خان جیسے بڑے ناموں کو اپنے ہمراہ دیکھنا خوش آئند ہے جو ہمارے مستقبل پر مثبت اثرات مرتب کرے گا۔
وسیم خان نے یونس خان کو بیٹنگ کوچ بناکر ماسٹر اسٹروک کھیلا ہے ۔یونس خان کا بین الاقوامی کریئر خاصا ہنگامہ خیز رہا ہے۔ ان کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ وہ کھرے لیکن انتہائی جذباتی انسان ہیں۔انھوں نے 2006 میں پاکستانی ٹیم کی قیادت صرف اس وجہ سے چھوڑنے کا اعلان کر دیا تھا کہ بورڈ کے چیئرمین شہریارخان نے انھیں ملاقات کے لیے چند منٹ انتظار کو کہا تھا۔2009میں یونس خان پر سینیٹ کی اسپورٹس کمیٹی نے جب مبینہ طور پر میچ فکسنگ کا الزام عائد کیا تو انھوں نے اس وقت بھی کپتانی سے استعفیٰ دے دیا تھا حالانکہ کمیٹی کے سامنے کرکٹ بورڈ کے چیئرمین اعجاز بٹ نے ان کا بھرپور دفاع کیا تھا۔ نیوزی لینڈ کے خلاف متحدہ عرب امارات میں کھیلی گئی ہوم سیریز کے موقع پر بھی انھوں نے کپتانی چھوڑنے کا اعلان کیا تھا جب ٹیم کے کئی کھلاڑی ان کے مبینہ سخت رویے کی وجہ سے ان کی کپتانی میں کھیلنے کے لیے تیار نہیں تھے۔
ماضی میں پل میں تولا اور پل میں ماشا والے یونس خانکہتے ہیں میں نے ریٹائرمنٹ کے بعد فلاحی کاموں کے سلسلے میں جو غیر ملکی سفر کئے ہیں ان سے میں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ مجھ میں پہلے سے زیادہ انکساری آ گئی ہے۔ مجھے اس بات کا بھی اندازہ ہے کہ پاکستانی انڈر 19 ٹیم کی کوچنگ کے سلسلے میں میرے پاکستان کرکٹ بورڈ سے معاملات طے نہیں پا سکے تھے۔
اس وقت ہم ایک پیج پر نہیں آ سکے تھے حالانکہ میں نے انڈر 19 ٹیم کے لیے اچھے پلان بنا رکھے تھے لیکن اب میں کافی لچکدار ہوں میں نے سیکھا ہے کہ کیسے لچکدار بننا ہے۔ میں نے سوچ لیا ہے کہ مستقبل میں چاہے قومی ٹیم ہو یا نچلی سطح انھیں جو بھی موقع ملے گا وہ میں حاصل کروں گا۔دیکھیں یونس خان جس طرح تبدیل ہوکر گفتگو کررہے تھے کیا وہ یہ تبدیلی پاکستانی بیٹنگ میں بھی لاسکیں گے۔