پاکستان کو اس قدر نقصان شخصی جمہوریت اور خاندانی وراثت سے پہنچا ہے جو حاکمیت اور سیاست میں جاری ہے اس کا اندازہ ان قوتوں کو شاید نہ ہو جن کے بچے ان کے سیاسی وارث بنے ہیں اور جو اس بات پر خوش ہیں کہ اب ’’پدرم سلطان بود‘‘طرز حکومت اور طرز سیاست بن رہا ہے۔ ہم نہیں تو ہماری نسلیں ہی سہی جو ہمارے زیر سایہ اور ہمارے نام پر اقتدار حاصل کر لیں گی۔ اور جن کی اولادوں کا ’’عوامی استقبال‘‘ زندہ باد کے نعروں سے کیا جاتا ہے۔ لیکن ملک اور قوم کو اس کا جونا قابل تلافی نقصان پہنچتا ہے وہ شاید ان کی آنکھوں سے اوجھل رہتا ہو لیکن ان کی سیاسی جماعتیں اور تحریکیں اس ’’مخلص قوت‘‘ سے محروم ہوجاتی ہیں جو مستقبل میں ملک اور قوم کی طاقت اور اثاثہ بننے والی ہیں۔ یہ وہ درخت ہوتا ہے جو اوپر اوپر تو پھیلتا ہے مگر نیچے سے بالکل کمزور رہتا ہے ۔ کسی جھٹکے اور طوفان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اس کا ثبوت انتخابات میں ان قوتوں کو مل جاتا ہےجو اس پالیسی پر کار بند رہتی ہیں وہ سیاسی کارکن جو ان کی جماعتوں میں یہ سمجھ کر شامل ہوتے ہیں کہ وہ اس جماعت میں شامل ہو کر عوامی جدوجہد کے ذریعے اپنے شعور اور دانش کا مظاہرہ کریں گے جس سےقوم کی بھلائی اور ملک طاقتور ہوگا۔ مگر ان سیاسی جماعتوں میں یا تحریکوں میں ان سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا جاتا اور وہ بکھر جاتے ہیں نا صرف طاقت اور قوت سے محروم ہوجاتے ہیں بلکہ انتخابات میں بھی ’’عوامی قوت‘‘ سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔ میں نام نہیں لکھنا چاہتا لیکن اہل نظر اور اہل شعور خود ہی پچھلی نصف صدی کی تحریکوں اور سیاسی جماعتوں پر نظر ڈال لیں تو شخصی جمہوریت کے نتائج سے بخوبی آگاہ ہوجائیں گے۔ یہی حال شخصی قیادت کا بھی ہوا ہے مجھےایک جنازے میںایک بڑے لیڈر سے ملنے کا موقع ملا۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ میری وہ جماعت سین سے غائب ہوچکی ہے۔ جس میں میں نے اپنے اہل خانہ کو ’’لیڈر شپ‘‘ سونپ دی تھی آپ کو یاد ہے کہ لوگ دیوانہ وار لاکھوں کی تعداد میں میرے استقبال کیلئے آیا کرتے تھے اور آپ نے بھی تھانہ بنی کے سامنے لاٹھیاں کھائیں مگر آج مجھے پہچاننے والوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ ان ’’لیڈر‘‘ صاحب کی شخصیت آج بھی باوقار اور ایماندار لوگوں میں شمار کی جاتی ہے مگر ان کا یہ فیصلہ غلط تھا۔ حالانکہ انہوں نے 1965ء پاک بھارت جنگ میں بڑی شاندار خدمات سرانجام دی تھیں۔ میں آج بھی انہیں HERO OF THE NATIONجانتا ہوں اور سمجھتا ہوں ۔ مگر ان کے اس فیصلے نے قومی سطح پر سیاسی کارکنوں ، دانشوروں اور پاکستان کے چاہنے والوں کو خاصا مایوس کیا ہمیں ان تجربات سے سبق سیکھنا چاہئے اور آئندہ ’’پدرم سلطان بود‘‘ کی سیاست کو خیر باد کہہ دینا چاہئے اس سے ملک اور قوم کی ترقی نہیں ہوتی بلکہ دنیا ہمارا مذاق اڑاتی ہے اور قوم کو شدید مایوسی بھی ہوتی ہے ہمارے سیاسی ، مذہبی رہنمائوںاور حکمران لیڈر شپ کو اس خیال سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہئے کہ ’’پدرم سلطان بود‘‘ کی سیاست آج کے جدید دور میں کوئی بڑی کامیابی حاصل کرے گی۔ اگر یہ ہوتا تو آج ترقی یافتہ ملکوں میں اپنے جانشینوں کے انتخاب کیلئے اپنی اپنی پارٹیوں میں نامزدگی کا اختیار حاصل نہ کیا جاتا ہم جن ملکوں کا اور ان کی قیادت کی مثال پیش کرتے ہیں امریکہ اوربرطانیہ و دیگر ترقی یافتہ ملکوں میں اعلیٰ عہدوں کیلئے نامزدگی کا ’’انتخاب‘‘ کیا جاتا ہے جیسا کہ ان دنوں امریکہ کے صدارتی انتخاب کیلئے نامزدگی پر کیا جارہا ہے، ہمیں اس طریقہ کار کو اپنانا چاہئے۔ میں ایمانداری سے یہ بات کہنے کو تیار ہوں کہ اگر یہ طریقہ کار اپنایا نہ گیا تو ہم سیاسی ، اقتصادی ، علمی اور معاشی طور پر پیچھے کی طرف جائیں گے ترقی کی طرف نہیں۔ یہ اٹل حقیقت ہے اور دنیا ہمارے بارے میں بہت اچھی رائے قائم نہیں کرےگی۔ ہمارے جن سیاسی کارکنوں اور جماعتی عہدیداروں نے اپنی کاوشوں سے پارٹیوں میں جدوجہد کی ہے اب ہمیں "one man Democracy"کی بجائے مخلص اور دیانتدار کارکنوں کو لیڈر شپ مہیا کرنی چاہئے ورنہ ’’دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا‘‘ اب پاکستان میں بے ایمانی کی سیاست نہیں ایمانداری کی سیاست چلے گی اور "One Man Democracy" کو ترک کرنا پڑے گا۔ نامزدگی کے طریقہ کار کے تحت سیاسی قیادت کسی انفرادی شخص کو نہیں دی جاسکتی۔ اس سے خوشامدی قیادت کا طریقہ کار تو پیدا ہوسکتا ہے لیکن قومی خدمت کا نہیں۔ آج ان لوگوں کو عوام نفرت کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں جو برسراقتدار لوگوں کے قریب رہ کر ’’مال‘‘ بنانے کی کارروائیوں میں مصروف ہیں میں برملا یہ بات پاکستان کی سیاسی اور حکمران قیادت سے کہنا چاہتا ہوں چاہے وہ اپوزیشن کی ہو چاہےسرکار کی یہ بات سب کیلئے ہے کہ وہ اس طریقہ کار کو ترک کریں اگر انہوں نے یہ رویہ ترک نہ کیا تو ملک اور ان کی سیاسی جماعتوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ بڑے بڑے مالی مفادات اور غیر معمولی سپورٹ دینے سے حکمرانوں کو اور سیاسی رہنماؤں کو کوئی عوامی طاقت حاصل نہیں ہوگی۔ یہ اٹل حقیقت ہے اب ہمیں افراد کی بالادستی چھوڑ کر قوم کی بالادستی کی فکر کرنی چاہئے۔