• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

”آئرن لیڈی“ برطانوی سیاست کا ناقابل فراموش باب

”آئرن لیڈی“ مارگریٹ تھیچر بھی اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئیں مارگریٹ تھیچر برطانیہ کی سیاسی تاریخ کا ایک ناقابلِ فراموش اور اہم باب ہیں۔ برطانیہ کی پہلی خاتون وزیراعظم جنہوں نے اپنی غیر معمولی سیاسی تدبر اور صلاحیتوں کا لوہامنواتے ہوئے 1974ء سے لیکر 1990ء تک نہ صرف مقامی بلکہ بین الاقوامی سیاست میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
مارگریٹ تھیچر 1970ء سے 1974ء تک سیکرٹری آف سٹیٹ فار سائنس اور ایجوکیشن کے عہدہ پر بھی تعینات رہیں اورایک صحافی کے بقول یہ وہ دور تھا جب وہ برطانیہ کی سب سے زیادہ غیر مقبول خاتون کے طور پر جانی جاتی تھیں۔ خصوصاً جب انہوں نے سکولوں میں 7 سال سے زیادہ عمر کے بچوں کوفراہم کئے جانے والے دودھ پر پابندی عائد کروائی اور اس بناء پر انہیں ”ماں تھیچر ملک اسنیچر“ (MA THECHAER MIK SNATUR) جیسے ناموں سے بھی پکارا گیا۔ اسی زمانے میں مارگریٹ تھیچر نے پرائمری سکول کی فنڈنگ کی تو حمایت کی لیکن سکینڈری اور یونیورسٹی کی سطح کی تعلیم کے لئے پرائیویٹ فنڈنگ کی حامی رہیں۔ ویمن نیشنل کمیشن کی کو چیئرپرسن ہونے کے باوجود وہ خود کو تحریک حقوق نسواں سے منسلک کرنا پسند نہیں کرتی تھیں۔ البتہ انہوں نے قومی معیشت میں عورتوں کی شراکت کی ہمیشہ پرزور تائید اور حمایت کی۔
برطانیہ کے عام انتخابات میں تین مرتبہ کامیابی حاصل کرنے والی مارگریٹ تھیچر کواپنے دورِ اقتدار میں کئی طرح کے چیلنجز اور تنقید کا سامناکرنا پڑا اور ایک وقت ایسا بھی آیا جب ان کی پالیسیوں کی وجہ سے ان کی مقبولیت اور پسندیدگی کا گراف کافی نیچے آچکا تھا لیکن 1982ء میں فاک لینڈ کی جنگ میں برطانیہ کی فتح نے ان کی کم ہوتی ہوئی مقبولیت کو سہارا دے دیا اور 1984ء کے انتخابات میں انہیں کامیابی حاصل ہوگئی۔ عالم سیاست کے تناظر میں مارگریٹ تھیچر کا کردار سرد جنگ کے خاتمہ میں نہایت اہم نظر آتا ہے۔ برطانیہ کے نظریاتی استحکام اور عالمی طور پر اسے ممتاز مقام دلاتے ہوئے انہوں نے موومنٹ یونین کی عالمی بالادستی اور قوت کو تورنے میں اہم رول ادا کیا۔ خارجہ امور میں تھیچر نے امریکی سربراہ اور رونالڈ ریگن کے ساتھ تعلقات کو مزید مستحکم کیا جن کی بنیاد کمیونزم پر دونوں ممالک کی مشترکہ عدم اعتماد کی پالیسی رہی اور برطانیہ اور امریکہ ہمیشہ آزاد عالمی معیشت کے نظریہ پر متفق رہے۔ اس طرح یورپی ممالک سے نزدیکیاں بڑھانے کی بجائے مارگریٹ تھیچر نے انگریزی بولنے والے ممالک امریکہ، کینیڈا، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کو زیادہ ترجیح دی۔مارگریٹ تھیچر اپنی پارٹی کے ساتھ ساتھ پوری برطانوی سیاست میں بھی انقلابی تبدیلیوں کی خواہاں تھیں۔ ان کی معاشی پالیسی خصوصاً بین الاقوامی پر نج کاری یا پرائیویٹائزیشن کا مقصد سوویت یونین کی بالادستی کا خاتمہ کرنا اور اس کی جارحیت کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہونا تھا۔ اس میں شک نہیں کہ مارگریٹ تھیچر نے مقامی اور عالمی سیاست میں ایک موثر کردار ادا کیا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ان کی بعض پالیسیاں غیر منصفانہ بھی تھیں جو کہ دنیا کے ساتھ ساتھ خود برطانیہ کی ترقی اور خوشحالی کے لئے زیادہ سود مند ثابت نہ ہوسکیں جن سے برطانیہ کی ورکنگ اور مڈل کلاس متاثر ہوئی۔ طبقاتی فرق بڑھا، غربت میں اضافہ ہوا۔ غریب اور متوسط طبقے کو ملنے والی سہولتوں میں کمی واقع ہوئی اور آج بھی برطانیہ کے سوشل سسٹم میں کی جانے والی تبدیلیاں اس بات کی علامت ہیں کہ تھیچر کی Legacy اور اثرات موجود ہیں۔ موجودہ حکومت کے پلان کو دیکھتے ہوئے تو یہ صاف محسوس ہورہا ہے کہ موجودہ حکومت اسی طرح کی پالیسیوں کو نافذ کرنے کی کوشش میں ہیں۔ جن کی نافذ العمل ہونے کے بعدغریب اور متوسط طبقات میں غربت بڑھنے کے امکانات کو محسوس کیا جارہا ہے۔ پبلک سیکٹر میں 70 لاکھ 10 ہزار کے قریب سہولتوں کی تخفیف، بیڈ روم ٹیکس، بینفیٹ سسٹم میں کی جانے والی تبدیلیاں اور یونیورسٹی کی فیسوں میں اضافہ اس بات کا ثبوت ہے۔ سابقہ پرائم منسٹر ٹونی بلیئر اور موجودہ وزیراعظم گورڈن براؤن بھی مکمل طور پر ان کے گرویدہ نظر آتے ہیں۔ برٹش پاکستانی تجزیہ نگار طارق علی نے بھی حالیہ انٹرویو کے دوران ان خیالات کا اظہار کیا ہے کہ ٹونی بلیئر اور گورڈن براؤن دونوں نے وزیراعظم بننے کے بعد سب سے پہلے جس شخصیت کو 10 ڈاؤننگ سٹریٹ میں مدعو کیا تھا وہ مارگریٹ تھیچر تھیں۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دونوں برطانوی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر کے اثر میں ہے۔Falkland (فاک لینڈ) کے معاملے میں جس حکمتِ عملی کی ابتداء مارگریٹ تھیچر نے کی تھی اسی کو ٹونی بلیئر نے بھی عراق، کوسوو اور افغانستان کے معاملات میں اختیار کیا۔ مارگریٹ تھیچر کی Legacy پر اگر اس طرح عمل ہوتا رہا تو عام خیال یہ ہے کہ برطانیہ کی سیاسی اور معاشی نظام میں کمزوری پیدا ہوسکتی ہے۔
مارگریٹ تھیچر نے دولت مشترکہ کے ممالک سے برطانیہ آنے والوں کے امیگریشن کی بھی مخالفت کی تھی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ امیگریشن خود برطانوی ثقافت کے لئے خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔ آج آئرن لیڈی کے رخصت ہونے کے بعد بھی برطانوی سیاست میں ان کے نظریات کا اثر کارفرما نظر آرہا ہے۔اس کے ساتھ ہی مختلف لوگوں کے ردعمل بھی سامنے آرہے ہیں۔ لوگ مارگریٹ تھیچر کے دور کی پالیسی اور حکمت عملی کو یاد کرکے خوفزدہ بھی ہیں۔ بے روزگاری، نجی سرمایہ کاری سے پیدا شدہ انتشار، پول ٹیکس کے احتجاج اور ہنگامے، نسلی فسادات، ٹریڈ یونین اور سوشل سسٹم میں اصلاحات کی وجہ سے پیدا ہونے والا خلفشار کو آج بھی لوگ نہیں بھولے ہیں اور موجودہ حکومت کو بھی اس امر کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
تازہ ترین