• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرے لئے عمران خان اور آغا وقار دونوں قابل احترام شخصیات ہیں۔ عمران خان کو تو آپ سب جانتے ہیں ، جانتے تو آپ آغا وقار کو بھی ہیں لیکن ممکن ہے ان کا نام ذہن سے نکل گیا ہو۔ بہرحال ان دونوں کے دلوں میں ملک و قوم کا درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ عمران خان نے قوم کو یہ خوشخبری سنائی ہے کہ وہ برسر اقتدار آ کر صرف نوے دنوں میں کرپشن کا خاتمہ کر دیں گے اور آغا وقار نے ملک کو توانائی کے بحران سے بچانے کے لئے پانی سے گاڑیاں چلانے کا دعویٰ کیا تھا۔ مگر بدقسمتی سے سائنسدانوں نے آغا صاحب کے دعوے کو جھوٹ اور بوگس قرار دیا بلکہ ان پر فراڈیا ہونے کا الزام بھی لگایا تاہم ”عزت افزائی“ کے ان مراحل سے گزرنے میں عمران خان کو تو ابھی مہینہ ڈیڑھ مہینہ لگے گاجس عزت افزائی کا مرحلہ آغا وقار نے بہت کم عرصے میں طے کر لیا تھا بلکہ اس وقت سے تو یوں لگتا ہے جیسے وہ مرحلہ ہی نہیں، خدانخواستہ خود آغا صاحب بھی ”گزر“ گئے ہیں۔
عمران خان کا رستہ اگرچہ کافی طویل ہے تاہم میری تمام تر دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے ابھی الیکشن کی تیاری کرنا ہے، ٹکٹوں کے سلسلے میں جو غلط بخشیاں ہوئی ہیں ان میں سے کچھ تو وہ ابھی سے بھگت رہے ہیں باقی آگے چل کر بھگتیں گے، اس کے بعد اپنے ”ممی ڈیڈی“ ووٹروں کو پولنگ اسٹیشن جانے کی زحمت بھی خود انہی کو گوارا کرنا ہو گی یعنی ان کے منت ترلے کرنا ہوں گے، اس کے بعد چاروں صوبوں میں پولنگ ہونا ہے اور پولنگ کے نتیجے میں مسلم لیگ (ن) تک کو چاروں شانے چت کر کے الیکشن سویپ کرنے ہیں۔ پھر انہوں نے وزیر اعظم بننا ہے اور نوے دنوں میں سارے ملک سے کرپشن بھی ختم کرنا ہے۔ یہ سب باتیں سامنے کی باتیں ہیں مگر سوال یہ ہے کہ خان صاحب کا جاگتی حالت میں دیکھا گیا یہ خواب بالفرض محال پورا بھی ہو جاتا ہے یعنی چاروں صوبوں میں ان کی اکثریت آ جاتی ہے مگر وزیر اعظم تو وہ پھر بھی نہیں بن سکیں گے کیونکہ وزارتِ عظمیٰ کے لئے حلف اٹھانا پڑتا ہے اور یہ حلف صدر زرداری نے لینا ہے اور خان صاحب اعلان کر چکے ہیں کہ وہ صدر زرداری کے ہاتھوں حلف نہیں اٹھائیں گے چنانچہ ملک سے کرپشن کے خاتمے کے ضمن میں ان کے سامنے دو بہت بڑے ”اگر“ آتے ہیں، ایک ”اگر“ یہ کہ ”اگر“ وہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جس کی دور دور تک کوئی امید نہیں اور دوسرا ”اگر“ یہ کہ ”اگر“ یہ مفروضہ صحیح بھی ثابت ہوتا ہے تو ایک تیسرا ”اگر“ بھی صدر آصف علی زرداری کی صورت میں سامنے آن کھڑا ہونا ہے۔ یہ مرحلہ صرف اس صورت میں طے ہو سکتا ہے اگر خان صاحب حلف کیلئے ”اگر“ کی بجائے ”مگر“ کا استعمال کریں یعنی بیان میں تھوڑی سی تبدیلی کر کے ارشاد فرمائیں کہ اگرچہ صدر زرداری سے وہ حلف اٹھانا پسند نہیں کرتے ”مگر“ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں وہ یہ حلف اٹھا رہے ہیں۔
عمران خان سے میری محبت کا عالم دیکھیں کہ میں نے کیسے چشم زدن میں ان کا ایک مسئلہ حل کر دیا، باقی رہا الیکشن میں کامیاب ہونا تو ان کے کالم نگار دوست تو انہیں کب سے کامیاب قرار دے چکے ہیں اور یوں اب ہم میں سے کسی کو اس ضمن میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں چنانچہ اب مسئلہ صرف کرپشن کے خاتمے کا رہ جاتا ہے اور وہ بھی صرف نوے دنوں میں ! جنرل ضیاء الحق کے نوے دن گیارہ سال میں پورے ہوئے تھے۔ مجھے علم نہیں کہ عمران خان کا ایک دن کتنے سالوں کا ہوتا ہے لیکن اٹھارہ کروڑ کرپٹ عوام (مجھے اور خان صاحب کو نکال کر) کی کرپشن ختم کرنے کا وعدہ بہرحال ایک سہانا سپنا ہے اور یوں یہ نوے دن اس خوبصورت سپنے کے ساتھ بسر کئے جا سکتے ہیں۔ تھانوں، کچہریوں، ترقیاتی اداروں، پولیس، ایف بی آر، ایف آئی اے اور زندگی کے ہر شعبے میں بیٹھے ادنیٰ ترین سے اعلیٰ ترین کرپٹ لوگ خان صاحب کی عزت رکھنے کے لئے کرپشن چھوڑ دیں گے اس کے بعد ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی۔ خدا کے لئے خان صاحب جلدی آئیں اگر آپ نے ذرا سی بھی تاخیر کی تو ہماری آنکھ کھل جائے گی اور پھر کوئی اور سپنا دوبارہ دیکھنا پڑے گا۔
خان صاحب نے اپنی انتخابی تقریروں اور بیانات میں ایک بات اور بھی کہی ہے اور وہ یہ کہ اس وقت پیسے اور جنون کی جنگ جاری ہے ۔ دوسری جماعتوں کے پاس پیسہ ہے جو وہ اندھا دھند خرچ کر رہے ہیں جبکہ خان صاحب کے پاس صرف جنون ہے۔ میرے خیال میں خان صاحب قدرے انکسار سے کام لے گئے ہیں کیونکہ اندھا دھند پیسہ تو وہ ٹی وی چینلوں پر چلنے والی اشتہاری مہم میں خرچ کر رہے ہیں اور جنون تو فی الحال کہیں بھی نظر نہیں آرہا۔ اس اشتہاری مہم میں خان صاحب کو نماز پڑھتے بھی دکھایا جاتا ہے اور شوکت خانم ہسپتال کی جھلکیاں بھی دکھائی جاتی ہیں۔ انہیں نماز پڑھتے دیکھ کر کم از کم مجھے تو یقین آ گیا کہ وہ ایک متقی، پرہیز گار اور پارسا شخص ہیں لیکن شوکت خانم ہسپتال کو سیاست میں نہیں لانا چاہئے، یہ بات میں نے نہیں بلکہ ہسپتال کے چیف ایگزیکٹو جو نہایت معقول شخص ہیں، نے ایک بار کالم نگاروں سے ملاقات کے دوران کہی تھی کیونکہ اس سے ایک فلاحی ادارے کو نقصان پہنچے گا۔ خان صاحب نے یہ کام صرف اللہ کی رضا کے لئے کیا ہے لیکن اب وہ اس کا اجر اللہ کی بجائے اس کے بندوں سے ووٹوں کی صورت میں وصول کرنا چاہتے ہیں جبکہ اس ہسپتال کے لئے لاکھوں دوسرے پاکستانیوں کی طرح میں اور میری اہلیہ بھی عطیاًت دیتے رہے ہیں۔ مجھے ابھی مزید کچھ ضروری باتیں کرنا تھیں لیکن کچھ مہمان عین مشرقی تہذیب کے مطابق بغیر پیشگی اطلاع کے تشریف لے آئے ہیں لہٰذا آپ فی الحال ظفر اقبال کی تازہ غزل پڑھیں:
اِسی جہاں میں ہوں لیکن جہاں نہیں میرا
زمیں کسی کی ہے اور آسماں نہیں میرا
میں اپنی آگ کو پہچانتا ہوں ، جانتا ہوں
یہ میری آنکھوں میں ابکے دھواں نہیں میرا
وہی ہے شہر، وہی باغ ہے، وہی بازار
اور ان مکانوں میں گم ہے کہیں مکاں میرا
مجھے بھی ساتھ ہی رکھتی تھی موج موج اس کی
رکا ہوا ہوں کہ دریا رواں نہیں میرا
پڑاؤ پر ہوں یہاں میں تو ایک مدت سے
سو، گردِ خواب ہے یہ، کارواں نہیں میرا
سب اپنے اپنے کئے کی سزا بھگت لیں گے
وہی بچے گا کہ جو ہم زباں نہیں میرا
مکر نہ جاؤں میں جس سے وہ میری بات نہیں
بدل سکوں نہ جسے وہ بیاں نہیں میرا
میں لفظ کا بھی تکلف اٹھانے والا ہوں
کہ یہ بھی سلسلہٴ داستاں نہیں میرا
گزر رہی ہے نئے شہر میں مزے سے، ظفر
خدا کا شکر ہے کوئی یہاں نہیں میرا
تازہ ترین