• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قیادت کا کام اکیلے بھاگنا نہیں بلکہ سب کو ساتھ لیکر چلنا ہے مگر موجودہ قیادت سے تمام اتحادی ناراض ہیں پھر بھی حکومتی بےرُخی کم ہونے یا اطوار میں تبدیلی کے آثار نظر نہیں آتے۔ وفاق میں اتحادی اگر ناراض ہیں تو پنجاب میںبھی خوش نہیں، یہ حالات عکاس ہیں کہ حکمت وتدبر کا فقدان ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ کوئی راضی رہے یا ناراض، کسی کو پروا نہیں، پروا بھی کیوں ہو جب اپنے سوا سارے بدعنوان دکھائی دیتے ہوں حالانکہ ملک کو درپیش اندرونی و بیرونی چیلنجز کا تقاضا ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام ہو مگر کسی کو احساس ہی نہیں۔ لڑنا جھگڑنا کسی قائد کے شایانِ شان نہیں بلکہ ایسے اطوار اہلیت و صلاحیت کی کمی کے مظہر ہیں۔ موجودہ حکومت کو اقتدار سنبھالے دو برس ہونے کو ہیں لیکن سیاسی منظر نامہ زہر آلود ہو چکا ہے۔ اپوزیشن کا تو کام ہی تنقید کے نشتر چلانا ہے، حیران کن امر یہ ہے کہ اتحادی بھی حکمرانوں کو سوتنوں کی طرح کوس رہے ہیں ،’’کہتی ہے تجھے خلقِ خدا غائبانہ کیا‘‘ شاید کسی کو یہ سننے کی فرصت ہی نہیں۔

بجٹ کے ایام میں اختر مینگل کے حکومت سے الگ ہونے کو سیاسی نبض شناس بہت اہمیت دے رہے ہیں حالانکہ مالی تخمینہ پیش کرنے سے لیکر منظوری تک کے کٹھن لمحات کے دوران حزب اِقتدار ہمیشہ لچکدار رویہ اپناتی ہے اور ہر ممکن طریقے سے سیاسی فضا مکدر ہونے سے بچاتی ہے تاکہ بجٹ کی منظوری کا عمل توقعات کے مطابق مکمل کرسکے مگر بی این پی کی طرف سے الگ ہونے سے حکومتی رویے پر بہت سے سوال پیدا ہو گئے ہیں۔ وفاق میں بی این پی تبدیلی لانے کی پوزیشن میں نہیں لیکن حکومت پر دبائو میں بڑھ گیا ہے، ناراض اتحادی کو واپس حکومتی بنچوں پر لانے کے لیے منانے کا سلسلہ جاری ہے۔ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی، پرویز خٹک، اسد عمر اختر مینگل سے مل چکے ہیںمگر فیصلہ بدلنے کے آثار بظاہر معدوم ہیں۔ اصل میں مذاکراتی کمیٹی اتنی بااختیار نہیں کہ ناراض اتحادی کے مطالبات پورے کرنے کے حوالے سے کوئی یقین دہانی کرا سکے۔ بی این پی کا نقصان پورا کرنے کے لیے حکومت دیگر جماعتوں کو حکومتی اتحاد میں شامل کرنے کے لیے کوشاں ہے مگر وزارت اور جھنڈے والی گاڑی کی سیاست کے بدلے کون سیاسی مستقبل تاریک کر سکتا ہے؟ اب انتخابی منشور کے منافی طرزِ عمل اپنانے پر لوگ محاسبہ کرتے ہیں۔

وزیراعظم نے دورۂ سندھ کے دوران اپنی توجہ ملکی مسائل کے بجائے اتحادیوں پر مرکوز رکھی، یہ سانپ گزرنے کے بعد لکیر پیٹنے کے مترادف ہے۔ جب وقت تھا تو کسی کو عزت اور اہمیت نہ دیلیکن جب اتحادی حکومت سے الگ ہونے کا اعلان کرتے ہیں تو حکمرانوں کو منانے کا خیال آجاتا ہے۔ اگرچہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ حکومت تمام کام چھوڑ کرمحض اتحادیوں کو راضی رکھے بلکہ سوال یہ ہے کہ ناراض ہونے کی نوبت کیوں آنے دی جائے کہ بعد ازاں منت سماجت کرنا پڑے؟

حکومت سے ہر اتحادی نالاں ہے۔ پنجاب پر نگاہ ڈالیں تو یہاں بھی صورتحال قابلِ رشک نہیں، وجوہات کیا ہیں؟ اور یہ تصور کر لینا کہ ذمہ دار صرف اتحادی ہیں مناسب نہیں۔ بی این پی کے مطالبات لاپتا افراد کی تلاش اور وسائل سے صوبے کے مسائل کا حل ناممکن نہیں، یہ حقیقت عیاں ہے کہ لاپتا افراد کی فہرست میں کئی ایسے نام ہیں جو بھارت اور افغانستان میں سکونت اختیار کر چکے ہیں۔ یہ فراری لوگ صوبے میں جاری تخریبی سرگرمیوں میں ملوث ہیں اسی لیے منظرعام پر نہیں آتے۔ اتنی سے بات بتانے میں کون سا امر مانع ہے؟ کہنے والے تو یہ کہتے ہیں کہ حکومت مطالبات پورے کرنے یا اتحادیوں کے خدشات دور کرنے میں سنجیدہ ہی نہیں، اگر سنجیدہ ہوتی تو دلائل و شواہد سے مطمئن کرنا کون سا مشکل کام ہے؟ امسال وفاقی بجٹ میں دیگر صوبوں کے فنڈز میں کمی اور بلوچستان کے حصے میں اضافہ کیا گیا ہے مگر حکومت اتنی سی بات بتانے کی جسارت کرنے سے قاصر ہے۔

ایم کیو ایم کا مطالبہ بھی غیرحقیقی نہیں، وہ کراچی میں پانی، صفائی اوربد امنی جیسے مسائل کا خاتمہ چاہتی ہے حکمران جماعت نے بھی انتخابی اکھاڑے کے دوران کم و بیش ایسے ہی وعدے کیے تھے، اب اگر دونوں جماعتیں مل بیٹھ کر مشترکہ مقاصد کے لیے کام کریں تو نہ صرف کراچی کے مسائل حل ہوسکتے اور پی ٹی آئی کی نیک نامی میں اضافہ ہو سکتا ہے بلکہ اتحادیوں کے دل بھی جیتے جا سکتے ہیں لیکن وزیراعظم کے پاس اتحادیوں سے ملنے کے لیے وقت ہی نہیں جس سے بدگمانیوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

مسلم لیگ ق سے اتحاد کے وعدے بھی آج تک پورے نہیں ہو سکے۔ اتحاد کے وقت طے پایا تھا کہ دو وفاقی اور دوصوبائی وزارتیں دی جائیں گی لیکن وفاق میں ایک ہی وزارت پر اکتفاکر رکھا ہے دوسری وزارت کے بجائے بدنام کرنے کی مہم چلا رکھی ہے جس سے چوہدری برادران شاکی ہیں اور اب مشورے دینے سے اجتناب کرنے لگے ہیں، بےرخی اور نظرانداز کرنے سے اتحادی نالاں نہیں ہوں گے تو کیا خوشی کے شادیانے بجائیں گے؟

قیادت کے پیشِ نظر صرف اقتدار بچانا اور حریفوں کے لتے لینا اور انہیں پریشان کرنا ہی مقصد نہیں بلکہ اصل کام دل جیتنا ہونا چاہیے مگر یہاں دل کیا جیتنا، جو ساتھ ہیں اُنہیں بھی بھگایا جارہا ہے۔ ایسے اطوار قیادت کے دعویداروں کے نہیں ہو سکتے، وفاق سمیت پنجاب میں حکمران اتحاد سادہ اکثریت میں ہے۔ یہ سادہ اکثریت اتحادیوں کو بھگا کر برقرار نہیں رکھی جا سکتی۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ قیادت کام کے بجائے خواب فروشی میں مصروف ہے۔ جو دو تین اتحادیوں کو ساتھ رکھنے کا ہنر نہیں رکھتے، وہ پورے ملک کو ساتھ لیکر کیسے چل سکتے ہیں؟ شیخ چلی کے خواب اور زمینی حقائق میں فرق ہوتا ہے۔خواب اور حقیقت میں تمیز ہی حکومتی حکمت و تدبر کا امتحان ہے۔ اِس امتحان میں ناکامی کوچۂ اقتدار سے رخصت پر منتج ہو سکتی ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین