• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حرف و حکایت … ظفر تنویر
آنکھیں تو اب بھی اسے دیکھنا اور کان سننا چاہئے ہیں لیکن وہی ہے جس نے آنکھیں ہی بند کرلی ہیں ایک نہیں کئی نسلیں ہیں جو اس کی کاٹ دار آواز سن سن کر جوان ہوئیں اور وہی ہیں جن میں اس کا ماتم بپا ہے۔ پاکستان کے تقریباً سبھی اخبارات نے اس کی موت کی خبر شائع کی اس پر فیچر اور کالم لکھے گئے فلم، ٹی وی، اسٹیج اور اس کی شاعری کے تذکرے ہوئے لوگوں نے اسے اپنا آئیڈل قرار دیا، بہت سوں نے اسے ایک عہد کے خاتمہ پر تعبیر کیا لیکن کسی نے بھی جدوجہد کے ان راستوں کا ذکر نہیں کیا جن پر چل کر وہ اس مقام تک پہنچا تھا۔ ہجرت کے سفر سے آخری سفر تک وہ پتھریلے راستوں پر ہی چلتا رہا ان راستوں پر چلنا تو اس نے 11برس کی عمر میں اسی وقت شروع کردیا تھا جب اس نے باپ کی انگلی پکڑے لدھیانہ کی بجائےمٹگمری (ساہیوال) کو اپنا گھر بنایا تھا ابتلا اور قربانیوں کے اس دور کا ذکر کرتے ہوئے طارق عزیز کے ساتھ زندگی کا ایک بڑا حصہ گزارنے والے احمد عقیل روبی بتاتے ہیں کہ ان دنوں میں جب مٹگمری (ساہیوال) میونسپل کمیٹی کے کوڑا کرکٹ ڈھونے والے ریڑھے ہجرت کی راہ میں مارے جانے والوں کی لاشیں اٹھائے وہاں سے گزرتے تو ریڑھے کے پیچھے بھاگنے والا ننھا طارق ریڑھے پر پڑی لاشوں کے لٹکتے ہاتھ پائوں سیدھے کرتا یہی وہ دور تھا جب بے توقیر بے وقعت زندگی کے معنی کھل کر اس کے سامنے آئے۔ جدوجہد کرنا تو اس نے اپنے والد میاں عبدالعزیز سے سیکھا تھا وہی میاں عبدالعزیز جو اپنے نام کے ساتھ فخر کے ساتھ پاکستانی لکھتے یہ ایک مسلم لیگی خاندان تھا اور مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے اپنے نئے وطن کی تعمیر کیلئے کچھ نہ کچھ کرتا رہتا کام کی یہی لگن اور جذبہ انہیں پاکستان کے سابق وزیراعظم حسین شہید سہروردی کے قریب لے آیا طارق اور ان کے والد سہروردی (مرحوم) کو بابا کہتے تھے ایک مرتبہ بابا (سہروردی مرحوم) مٹگمری کے دورہ پر آئے تو رات قیام کیلئے انہوں نے میاں عزیز کا گھر چنا، پروٹوکول اور سیکورٹی نے بہت شور شرابہ کیا لیکن وزیراعظم اڑ گئے کہ وہ رہیں گے تو میاں عزیز کے گھر نہیں تو واپس کراچی چلے جائیں گے، وزیراعظم کو دوسرے روز مٹگمری (ساہیوال) میں ہی بہت سے وفود سے ملنا تھا اور کسی اجلاس میں شرکت کرنا تھی مجبوراً سیکورٹی کو ہاں میں ہاں ملانا پڑی اور وہ رات وزیراعظم پاکستان نے ایک چھوٹے سے گھر میں گزاری۔ دوسری صبح وزیراعظم کے جانے کے بعد طارق عزیز نے وزیراعظم کے زیر استعمال بستر ٹھیک کیا تو انہیں تکیہ کے نیچے پانچ پانچ سو روپے والے نوٹوں کی گڈی ملی، طارق عزیز نے وہ روپے اپنے باپ کو دیئے تو وہ اسی وقت سائیکل پر بیٹھ کر وزیراعظم سہروردی کے پاس گئے اور وہ نوٹ واپس کرتے ہوئے کہا کہ ’’ان پر میرا حق نہیں، میرا ملک میرے لئے کافی ہے‘‘ سہروردی مرحوم شاید اس بہانے ان کی مدد کرنا چاہتے تھے لیکن مدد نہ لینا اور سبھی کچھ اپنے طور کرنا شاید یہیں سے طارق عزیز میں منتقل ہوا تھا، طارق عزیز جب ساہیوال سے لاہور آیا تو یہاں اس کے جاننے والے شاید چند ہی لوگ تھے وہ سارا دن ملازمت کیلئے بھاگ دوڑ کرتا اور رات کو کسی پارک میں لگے بنچ پر سوجاتا ریڈیو پاکستان لاہور میں ملازمت ملی تو پانچ روپے دیہاڑی ملنے لگی جو شاید اس کی ضرورتوں کیلئے بہت تھی، بہت کہاں تھی اب بھی وہ کئی بار کسی گول چکر میں یا کسی پارک میں اپنی راتیں گزارتا ایک نکڑ پر بنے ہوٹل (ٹی اسٹال) سے اس کی واقفیت ہوگئی تھی جہاں سے اسے ادھار چائے مل جاتی اور وہ چائے کا ایک کپ پی کر جدوجہد کے راستے پر چلنا شروع کردیتا اس نے وہ دن بھی دیکھا جب وہ نمونیا کے باعث بری طرح تپ رہا تھا اور اپنے ٹھنڈے وجود کو مزید ٹھنڈ سے بچانا چاہتا تھا، لاہورمیں لنڈے بازار کے ایک دکان دار نے ٹھٹھرتے ہوئے طارق عزیز کے بدن سے اوورکوٹ اس لئے اتروالیا تھا کہ طارق کے پاس اسے دینے کیلئے صرف بیس روپے تھے جبکہ وہ زیادہ مانگ رہا تھا۔طارق عزیز کی زندگی میں انقلاب اس روز آیا جب اسلم اظہر (مرحوم) نے نومولود پاکستان ٹیلی ویژن کے انائونسر کے طور پر طارق عزیز کو بھرتی کرلیا اس کی تنخواہ ایک سو پچاس روپے ماہانہ کی بجائے 500 روپے ماہوار ہو گئی اسے لگا کہ وہ پاکستان پہنچ گیا ہے اور اسی نشہ میں وہ مولانا عبدالحمید بھاشانی اور چوہدری فتح محمد کے شانہ بشانہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ہونے والی کسان کانفرنس کا ایک ولولہ انگیز مقرر بن کر ابھرا ۔انقلاب کی تلاش اور پاکستان کو سنوارنے کے عشق میں اس نے پیپلز پارٹی کے تاریخی اجتماعات سے خطاب کیا۔ معراج محمد خان اور طارق عزیز کی جوڑی کسی بھی جلسہ کی کامیابی کی ضمانت بن گیا، طارق عزیز کو پاکستان سے جتنا پیار ہے اسے جاننے کیلئے نیلام گھر میں لگایا گیا نعرہ ’’پاکستا ن زندہ باد‘‘ ہی سن لیں تو اندازہ ہوجاتا ہے کہ پاکستان کس طرح اس کے اندر تک گھس گیا تھا اور شاید یہی وجہ ہے کہ بچے جہاں بھی اسے دیکھتے پاکستان زندہ باد کے نعرے سے ہی اس کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے۔طارق عزیز اور ان کے والد پاکستان کے نشہ میں ڈوبے ہوئے تھے پاکستان کو بھی احساس تھا کہ یہ عزیز فیملی کس حد تک اس میں اپنی جگہ بنا چکی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے دونوں باپ بیٹے کی خدمات کے اعتراف میں انہیں تمغہ حسن کارکردگی عطا کیا 23مارچ 1993ء کو الحمرا لاہور میں پاکستان نے ان کی چھاتی پر یہ تمغہ سجایا اور غالباً یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ ایک ہی دن باپ اور بیٹے دونوں کی خدمات کا اعتراف کیا گیا۔ 25روپے نہ ہونے کے باعث لنڈے کے کوٹ سے محروم کر دیئے جانے والے طارق عزیز پر پھر وہ وقت بھی آیا کہ اس نے ایک ایک گھنٹے کا معاوضہ دس دس لاکھ روپے میں لیا اس نے جو کچھ کمایا جو کچھ بنایا جاتے وقت ’’بینک دولت پاکستان‘‘ کے حوا لےکرگیا کہ وہ تو ایک مسافر تھا سرائے کس طرح ساتھ لے جاتا۔
تازہ ترین