28جون کو نامور قانون دان، اصول پرست اور محب اسلام و وطن اے کے ڈوگر انتقال فرما گئے۔ جب اُن کی زریں یادوں کو سپردِ قلم کرنے کے لیے خیالات جمع کر رہا تھا تو پُرنم آنکھوں نے مچل مچل کر تادمِ آخر، تحریر کے ساتھ رواں دواں رہنے پر اصرار کیا۔ مرحوم سے تعلقات کی تاریخ زیادہ طویل نہیں لیکن گزشتہ سات آٹھ سالہ رفاقت نے لوحِ ذہن پر جو اَنمٹ نقوش چھوڑے ہیں وہ تاابد درخشاں رہیں گے۔ 2010ء میں شہباز شریف نے بیرونی ایجنسیوں سے امداد کے عوض، صوبہ بھر کے تمام سرکاری اسکولوں میں جبراً انگریزی ذریعہ تعلیم نافذ کر دیا، تب ہم نے نفاذِ اردو اور فوری طور پر اس فیصلے کے خلاف جدوجہد کی غرض سے اسی سال 5نومبر کو پاکستان قومی زبان تحریک کی بنیاد رکھی۔ ہمہ جہتی جدوجہد میں عدالتی چارہ جوئی بھی ایک اہم شعبہ تھا۔ اس ملک میں انصاف حاصل کرنے کے لیے لاکھوں روپے کی فیسیں درکار ہوتی ہیں۔ تحریک اس لحاظ سے تہی دامن تھی۔ اس کے باوجود سورۃ العنکبوت کی آخری آیت کا مفہوم سامنے آتا تھا کہ جو لوگ ہمارے راستے میں، نیکی کے لیے جدوجہد کرتے ہیں، تو ہم انہیں نئی راہیں دکھاتے ہیں۔ اللہ بھلا کرے ہمارے دوست سلیمان خان کا کہ انھوں نے چند کلماتِ خیر کے ساتھ ڈوگر مرحوم سے ہمارا تعارف کرایا۔ ہم نے اپنی معروضات پیش کیں تو ان پر غور کے وعدے کے ساتھ ایک ہفتہ بعد ملنے کو کہا۔ طے شدہ ملاقات میں وہ اعزازی طور پر کیس لڑنے پر بخوشی آمادہ ہو گئے۔ ہماری جدوجہد کا یہ ایک روشن سنگ میل تھا۔ چند روز بعد آئینی درخواست لاہور ہائیکورٹ میں دائر کر دی گئی۔ دورانِ سماعت سرکاری وکلا ایک دو فقرات کے علاوہ ڈوگر صاحب کے دلائل کے سامنے بےبس پائے جاتے۔ ہماری حمایت میں جج صاحبان کے ریمارکس سے گھبرا کر کیس یکے بعد دیگرے چار جج صاحبان کو بھیجا جاتا رہا۔ ایک بار جب آپ مرحوم نے لارڈ میکالے کی برطانوی پارلیمنٹ میں تقریر کا وہ اقتباس پیش کیا جس میں بذریعہ تعلیم ہندوستانیوں کو ذہنی غلام بنانے کا تذکرہ تھا، تو جج صاحب نے ان سے کہا کہ اس کی فوٹو کاپیاں کمرۂ عدالت میں تقسیم کی جائیں تاکہ پتا چلے کہ لارڈ میکالے کا نظامِ تعلیم ہمارے خلاف کتنی بڑی سازش ہے۔ القصہ چوتھے اور آخری جج نے فیصلہ محفوظ کر لیا۔
بقول شورش کاشمیری، ہمارے معاشرے کی اکثریت کو پیٹ کی مار نے قبروں کے کتبے بنا دیا ہے۔ مادہ پرستی کے اس دور میں ہم سے جدا ہونے والی وہ شخصیت بھی تھی جس کے جذبۂ حب الوطنی کی مثال ملنا مشکل ہے۔ ہوا یوں کہ فیصلہ محفوظ ہوتے ہوئے میں ایک حادثے کا شکار ہوا اور آپریشن کے بعد بسترِ علالت پر تھا۔ مرحوم کا فون آیا کہ محفوظ فیصلے کو جب اعلان کیے بغیر ایک ماہ گزر جائے تو وہ ردی کی ٹوکری میں چلا جاتا ہے۔ لہٰذا آئیں اور اپنا کیس دائر کریں۔ اللہ! اللہ! وہ شخص کہ جس کی فیس کی ابجد دس لاکھ سے اوپر شروع ہوتی ہے، خود فون کر رہا ہے۔ میں نے بسترِ علالت پر ہونے کا ذکر کیا اور بتایا کہ مجھے زندگی کی دوڑ اور عدالتوں کے چکر کاٹنے کے قابل ہوتے چار پانچ ماہ لگ جائیں گے۔ کہنے لگے، آپ کے ہمراہ کافی نوجوان ہوتے ہیں۔ میں کیس تیار کر دیتا ہوں، کسی کو بھیج کر وکالت نامے پر دستخط کر دیں۔ عزیز قارئین! ہماری حالیہ تاریخ میں کیا یہ بات ایک خیالی فسانہ نہیں لگتی؟ آہ! اب انھیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر۔
مرحوم کی اسلام سے محبت کا انداز والہانہ تھا۔ جس کی ایک تابندہ مثال، لاہور ضلع کچہری کی نئی اور وسیع و عریض مسجد ہے۔ شہباز شریف کے پہلے دور کے ایک کالے انگریز ڈی سی نے راتوں رات ضلع کچہری کی ستر سالہ پرانی مسجد شہید کروا دی۔ ڈوگر مرحوم نے ایک اور دوست کے ساتھ اس کے خلاف کیس دائر کیا اور دن رات ایک کر کے 85لاکھ روپے کی، متذکرہ ناہنجار ڈی سی کے خلاف ڈگری کروائی تاکہ اس کی وصولی سے اسی مقام پر مسجد دوبارہ تعمیر ہو سکے۔ دوسری جانب یہ امر بھی صد حیرت و استعجاب کا باعث ہے کہ ڈی سی صاحب نے کیس کے دوران یہ مؤقف اختیار کیا کہ میرے دفتر کے قریب مسجد کی لیٹرینوں سے بُو آتی تھی۔ بہرحال قائداعظم کی وارث ہونے کی دعویدار مسلم لیگ حکومت نے اپنے ڈی سی کو یوں بچا لیا کہ پچاسی لاکھ کی لاگت سے سرکاری فنڈ سے مسجد تعمیر کرا دی۔
پیرانہ سالی کے باوجود، خشک مزاجی کے بجائے حس ظرافت عروج پر تھی۔ ایک پیشی کے دوران ڈیڑھ دو گھنٹہ تک عدالت میں بیٹھنا پڑا۔ مرحوم جب عدالت سے باہر نکلے تو خفگی کے آثار چہرے سے عیاں تھے کیونکہ جج صاحب نے سماعت کے بجائے نئی تاریخ ڈال تھی۔ راقم نے عرض کیا کہ آپ ایک عظیم محب وطن ہیں، تو فوراً کہنے لگے: ڈاکٹر صاحب یہ بات جا کر میری بیگم سے بھی کہیں نا! ایک دفعہ بتانے لگے کہ ایک سابق چیف جسٹس نے نکٹائی کی تعریف شروع کر دی۔ میں نے کہا کہ جی ہاں، اس کے بہت سے فوائد ہیں مثلاً اگر کبھی جیب میں ٹشو پیپر نہ ہو تو آدمی اس سے ناک بھی صاف کر سکتا ہے۔ اس پر پوری محفل زعفران زار بن گئی۔ ان کی اسلام اور اصول دوستی کی یہ کیفیت تھی کہ ایک شام بڑے ہلکے پھلکے اور مخصوص انداز میں کہنے لگے، میرے ہم پیشہ کہتے ہیں کہ ڈوگر کو آج کل کیس کم ملتے ہیں۔ دو بار معنی خیز انداز میں فقرہ دہرانے کے بعد بتانے لگے کہ لاکھوں کی فیسیں ٹھکرا دیتا ہوں لیکن کبھی غلط کیس نہیں لیتا۔
آخر میں گزارش ہے کہ قارئین، مرحوم کی مغفرت اور درجات کی بلندی کی دعائیں فرمائیں اور ساتھ ہی یہ دعا بھی کہ قحط الرجال کے اس دور میں ملت اسلامیہ میں اس قسم کی شخصیات پیدا ہوتی رہیں۔