• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس جدید دور میں سائنس دان حیران کن چیزیں ایجا د کررہے ہیں ۔اس ضمن میں ماہرین نے ایک نئے وائرلیس انٹر نیٹ کاتجربہ پانی کے اندر کیا ہے ۔اس کے ذریعے پانی کی گہرائی میں رابطے کی نئی راہیں کھلیں گی ۔اس کو ’’ایکوا فائی ‘‘ کا نام دیا گیا ہے ،جس کی بدولت غوطہ خوروں نے پانی کی گہرائی سے برہ راست ویڈیو اور ڈیٹا کا تبادلہ کیا لیکن اس عمل میں ایل ای ڈیز اور لیزر کو استعمال کیا گیا ہے ۔یہ تجربہ سعودی عرب میں قائم شاہ عبداللہ یونیورسٹی برائے سائنس وٹیکنالوجی کے ماہرین نے کیا ہے ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ پہلی مرتبہ مکمل طور پر وائر لیس کے ذریعے پانی کے اندر انٹر نیٹ استعمال کیا گیا ہے ۔ایکوافائی کے عمل میں ریڈیائی امواج غوطہ خور کے اسمارٹ فون تک بھیجی جاتی ہیں اور کمپیوٹر سے روشنی کی ایک شعاع کی صورت میں ڈیٹا کو پانی کی سطح تک بھیجتا ہے۔ 

یہاں ایک آلہ سیٹلائٹ کے ذریعے انٹرنیٹ لے رہا ہوتا ہے جو عین وائی فائی بوسٹر کی طرح کام کرتا ہے۔اگرچہ آواز اور ریڈیو سے بھی پانی کے اندر روابط رکھے جاسکتے ہیں لیکن ان کی اپنی اپنی حدود ہیں۔ روشنی پانی کے اندر بھی ڈیٹا کی بڑی تعداد کو بہت دور تک لےجاسکتی ہے۔ اسی بنا پر ایکوا فائی کے فوائد بھی ان گنت ہیں۔اس عمل میں پانی کے اندر موجود شخص کے اسمارٹ فون سے ریڈیائی امواج، اس کی پشت پر لگے گیٹ وے کمپیوٹر تک جاتی ہیں۔ اب یہ ڈیٹا سبز ایل ای ڈی میں کی روشنی میں بدل جاتا ہے اور سطح پر موجود ایک اور ایسے کمپیوٹر تک جاتا ہے، جس پر روشنی کی شناخت کرنے والا نظام نصب ہوتا ہے۔ماہرین نے ایکوفائی سے تجرباتی طور پر 2 میگا بائٹ فی سیکنڈ سے زائد ڈیٹا کا تبادلہ کیا ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین