• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پوری دنیا میں پھیلی وبائی بیماری کووڈ 19 کی وجہ سے تمام بر اعظموں میں فضائی آلودگی اورمضر ِصحت گیسوں کا اخراج کافی حد تک کم ہوا ہے ۔اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ کورونا وائرس سے بچائو کے لیے تما م لوگ احتیاطی تدابیر اختیار کیے ہوئے ہیں۔ مگر کیا یہ سب عارضی ہے یا مضر صحت گیسوں کے اخراج میں کمی دیرپا ہو گی؟ گذشتہ چند ہی مہینوں میں دنیا بدل گئی ہے۔ ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ مزید کئی لاکھ افراد کورونا وائرس کی لپیٹ میں آ کر بیمار پڑے ہیں۔ کورونا ایک ایسا مہلک وائرس ہے، جس کے بارے میں دسمبر 2019 سے پہلے دنیا کو کچھ معلوم نہیں تھا۔کروڑوں افراد ایسے ہیں جو اگرچہ اس کی لپیٹ میں آنے سے بچے ہوئے ہیں،مگر اس کے باعث ان کے معمولات زندگی یکسر بدل گئے ہیں۔

ان سب اقدامات کا مقصد کووِڈ 19 کے پھیلاؤ کو روکنا اور اموات کی تعداد کو کم سے کم سطح پر رکھنا ہے۔ لیکن ان اقدامات کے کچھ غیر معمولی نتائج بھی سامنے آ رہے ہیں۔چوں کہ صنعتیں، ذرائع نقل و حمل اور کاروبارمکمل طور پر نہیں کھلے ہیں ، اسی وجہ سے فضا میں کاربن کے اخراج میں ایک دم کمی واقع ہوئی ہے۔ اگر موجودہ وقت کا گذشتہ برس کے شروع کے مہینوں کا موازنہ کیا جائے تو نیویارک میں وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کی وجہ سے فضائی آلودگی میں 50 فی صد کمی ہوئی ہے۔ایک اندازے کے مطابق چین میں رواں برس کے آغاز پر گیسوں کے اخراج میں 25 فی صد کمی ہوئی، کیوں کہ لوگوں کو گھروں میں رہنے کا پابند کر دیا گیا تھا، فیکٹریوں کے دروازے بند کر دیے گئے تھے اور 2019 کی آخری چند مہینوںکے مقابلے میں ملک کے بجلی بنانے والے چھ بڑے کارخانوں میں کوئلے کا استعمال 40 فی صد کم رہا۔

چین کی ماحولیاتی وزارت کے مطابق ملک کے 337 شہروں میں لوگوں کو جن دنوں سانس لینے کے لیے اعلیٰ معیار کی ہوا میسر ہوئی ان کا تناسب گذشتہ سال کے مقابلے میں 11.4 فی صد زیادہ رہا۔ یورپ میں سیٹلائٹ کے ذریعے حاصل کہ گئی تصویر سے معلوم ہوا ہے کہ نائٹروجن آکسائیڈ گیس کے اخراج کا اثر شمالی اٹلی پر کم ہو رہا ہے۔اسپین اور برطانیہ کا بھی یہ ہی حال ہے۔کووڈ 19 جیسا سنگین اور تیزی سے پھیلنے والا وائرس ہی اس طرح کی ڈرامائی تبدیلی کا موجب بن سکتا تھا۔اس عالمی وبا کی وجہ سے بے وقت اموات کے علاوہ، لاکھوں لوگوں کو بے روزگاری کا سامنا ہے، کیوں کہ بے شمار کاروباری ادارے کورونا وائرس کی وجہ سے لگائی گئی پابندیوں کے باعث شدید معاشی مشکلات کا شکار ہیں۔

معاشی سرگرمیاں معطل ہیں اور بازارِ حصص تیزی سے گِر رہے ہیں اور ان سب کے ساتھ فضائی آلودگی کی سطح بھی کم ہو رہی ہے۔ یہ صورت حال کاربن سے پاک پائیدار معیشت کے تصویر سے بالکل برعکس ہے، جس پر دنیا کو قائل کرنے کے لیے کئی دہائیوں سے کوششیں جاری تھیں۔تحقیق کا ر کے مطابق ایک عالمی وبا جو انسانی جانوں کے نقصان کا باعث بنی رہی ہے اس کو فضائی آلودگی کے حل کے طور پر نہیں دیکھا جاسکتا ہے۔لیکن اس بارے میں یقینی طور پر کچھ کہا بھی نہیں جا سکتا کہ گیسوں کے اخراج میں یہ کمی کتنی دیر چل سکتی ہے۔ آخر کار جب یہ وبا دم توڑ دے گی تو کاربن اور آلودگی کا باعث بننے والی گیسوں کا اخراج دوبارہ شروع ہو جائے گا۔ کیا صاف اور شفاف فضا کا یہ دورانیہ ایسا ہی ہو جائے گا جیسے کبھی آیا ہی نہیں تھا؟ یا یہ تبدیلی جو آج ہم دیکھ رہے ہیں وہ دیرپا ثابت ہو گی؟سویڈن کی لُنڈ یونیورسٹی کی تحقیق کار کمربلی نکلوس کا کہنا ہے کہ پہلی چیز جو قابل غور ہے وہ چند مختلف عوامل ہیں جن کی وجہ سے گیسوں کے اخراج میں کمی ہوئی ہے۔

یہ اخراج ان ملکوں میں کم ہوئے ہیں جہاں صحت عامہ کے پیش نظر وبا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے لوگوں کو گھروں میں رہنے کا کہا گیا ہے اور غیر ضروری نقل و حرکت ختم ہو گئی ہے، کیوں کہ فضائی اور سٹرکوں پر سفر کے دوران خارج ہونے والی گیسوں کا گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں بالترتیب 11 اور 72 فی صدحصہ ہے۔ہم جانتے ہیں کہ عالمی وبا کے دوران نقل و حمل محدود رکھنے تک یہ اخراج کم رہیں گے۔ لیکن اس وقت کیا ہو گا جب یہ پابندیاں اٹھا لی جائیں گی؟لنکوس کے مطابق کام پر آنے جانے کے علاوہ دوسرے مقاصد کے لیے کیے جانے والے سفر جب شروع ہو جائے گے تو کیا ہوگا ؟ مثال کے طور پر گھروں میں بند رہنے کے بعد جب لوگوں کو دوبارہ سفر کرنے کی اجازت ملے گی تو آلودہ گیسوں کا اخراج دوبارہ سے پہلے کی طرح شروع ہوجائے گا ۔

اگر کورونا وائرس کی وجہ سے آنے والی تبدیلی قائم رہی تو آلودہ گیسوں کااخراج کم رہے گا ۔لیکن ا س کا الٹ بھی ہو سکتا ہے۔ فی الحال لوگ دور دراز مقامات پر جانے کے اپنے پروگرام مؤخر کر رہے ہیں اور یہ بعد میں کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ جو لوگوں طویل فضائی سفر کثرت سے کرتے ہیں وہ کاربن کے اخراج کا زیادہ سبب بنتے ہیں۔ لہٰذا گیسوں کا اخراج، سفری پابندی اٹھائے جانے کے بعد جب لوگ اپنے معمولات کی طرف لوٹیں گے تو واپس اپنی معمول کی سطح پر آ جائے گا۔

یہ پہلی دفعہ نہیں ہواہے کہ ایک عالمی وبا نے فضا میں پائی جانے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ پر اپنا اثر نہ چھوڑا ہو۔ انسانی تاریخ میں ہمیشہ بیماریوں کے پھیلنے سے گیسوں کا اخراج کم ہوا۔ ہے حتیٰ کہ جدید صنعتی دور سے پہلے بھی۔جرمنی کی میونخ یونیورسٹی کےشعبہ جغرافیہ کے پروفیسر جولیا پونگراٹس کے مطابق 14ویں صدی میں جب یورپ میں’’ طاعون‘‘ یا’ ’بلیک ڈیتھ‘‘ کی وبا پھیلی تھی اور 16ویں صدی میں جب جنوبی امریکا پر اسپین نے قبضہ کیا تھا اور اپنے ساتھ خسرے کی وبا لے کر گئے تھے تو دونوں وباؤں نے فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کی سطح پر معمولی سا فرق ڈالا تھا۔

پروفیسر پونگراٹس نے اس کا اندازہ برف کی قدیم تہوں میں منجمد ننھے ننھے ہوا کے بلبلوں سے لگایا ہے۔یہ تبدیلیاں بیماریوں کی وجہ سے اموات کی شرح میں اضافہ اور جنوبی امریکا پر ہسپانوی قبضے کے دوران بڑے پیمانے پر مقامی لوگوں کے قتل عام کے نتیجے میں رونما ہوئی تھیں۔ دوسری تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں اموات کی وجہ سے وسیع زیر کاشت علاقے خالی ہو گئے تھے اور وہاں خود رو پودے آئے تھے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس بڑی مقدار میں جذب ہونے لگی تھی۔کورونا وائرس کے سبب زمین پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے والا ہے ۔ ماحولیات پر اس کے اثرات کی نوعیت موجودہ دور میں دوسرے واقعات کے مطابق ہو گی مثلاً 2008 اور 2009 میں آنے والے مالی بحران کی طرح۔

پروفیسر پوگراٹس کے مطابق اس وقت بھی عالمی اخراج میں بہت زیادہ کمی ہوئی تھی۔اس وقت اخراج میں کمی صنعتی سرگرمیوں میں کمی کی وجہ سے ہوئی ہے۔ صنعتی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی آلودگی کا موازنہ ٹرانسپورٹ یا ذرائع نقل و حمل سے کیا جا سکتا ہے۔صنعتی سرگرمیوں، پیداوار اور تعمیرات کا انسانی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی مجموعی عالمی آلودگی میں حصہ 18.4 فی صد بنتا ہے۔2008 اور 2009 کے مالی بحران سے اخراج میں 1.3 فی صدکمی ہوئی تھی۔ لیکن 2010 میں معیشت کی بحالی کے ساتھ یہ دوبارہ اپنی انتہائی سطح پر پہنچ گئی۔

پروفیسر پونگراٹس کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اشارے ملے ہیں کہ کورونا وائرس بھی اس طرح اثر انداز ہو گا۔ مثال کے طور پر اس وقت تیل، اسٹیل اور دوسری دھاتوں کی مانگ دوسری چیزوں کے مقابلے میں کم ہے۔ لیکن خام مال کے ذخائر بلند ترین سطح پر ہیں، اس لیے پیداوار بڑی تیزی سے بحال ہو جائے گی۔ایک عنصر جس کا تعلق اس بات سے ہے کہ اخراج اپنی سطح پر کب واپس آئیں گے اور وہ یہ ہے کہ کورونا وائرس کی یہ وبا کب ختم ہو گی۔پروفیسر پونگراٹس کے مطابق فی الحال یہ پیش گوئی کرنا بہت مشکل ہے۔ لیکن ہو سکتا ہے ہم زیادہ طویل عرصے تک اور زیادہ گہرے اثرات دیکھیں۔ 

اگر کورونا وائرس کی وبا اس سال کے آخر تک چلتی ہے تو صارفین کی کم آمدن کی وجہ سے اشیا کی طلب کم رہے گی اور تیل کی مانگ اتنی تیزی سے نہیں بڑھے گی، گو کہ پیداواری صلاحیت اپنی جگہ برقرار رہے گی۔معاشی تعاون اور ترقی کی تنظیم (او ای سی ڈی) نے پیش گوئی ہے کہ 2020 میں ان سب باتوں کے باوجود عالمی معیشت میں ترقی ہوگی گو کہ شرح نمو میں کورونا وائرس کی وجہ سے نصف کمی متوقع ہے۔اوسلو میں بین الاقوامی موسم اور ماحولیاتی ریسرچ کے مرکز سے منسلک محقق گلین پیٹرز کا کہنا ہے کہ بحالی کے باوجود اس سال عالمی اخراج میں 0.3 فی صد کمی ہو گی جو کہ 10 سال قبل آنے والے معاشی بحران کے مقابلے میں کم ہے۔ لیکن اس مرتبہ اگر شفاف توانائی کے ذرائع استعمال کرنے پر توجہ برقرار رہی تو اخراج میں یہ کمی معاشی سرگرمیوں کی بحالی کے بعد بھی کم رہے گی۔

کورونا وائرس کی وجہ سے پڑنے والے اثرات کے زیادہ طویل عرصے تک قائم رہنے کے کئی اور بلاواسطہ طریقے بھی ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ ہے کہ لوگوں کے ذہنوں سے موسمیاتی تبدیلیوں کا خیال نکال دیا جائے اس لیے کہ انسانوں کی زندگیوں کو بچانے کا سنگین مسئلہ زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے۔اس کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ماحولیات پر ہونے والی بحث کو زیادہ مشکل بنا دینا ہے ،کیوں کہ عوامی اجتماعات کو ملتوی کیا جا رہا ہے۔ماحولیاتی کارکن گریٹا تھونبرگ نے اس بات پر زور دیا ہےکہ کورونا وائرس کی وجہ سے مظاہروں کے بجائے ڈیجیٹل ایکٹیوازم کیا جائے۔دوسرا طریقہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں لوگوں کے معمولات میں جو تبدیلی آئی ہے وہ کورونا وائرس کی وبا پر قابو پائے جانے کے لیے بعد بھی برقرار رہے۔

پروفیسر نکولس کا کہنا ہے کہ سوشل سائنس کی تحقیق سے یہ جانتے ہیں کہ نازک دور میں کی جانے والی تبدیلیاں زیادہ مؤثر ثابت ہوتی ہیں۔سوئٹزر لینڈ کی زیورخ یونیورسٹی میں 2018 میں کی جانے والی ایک تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ جب لوگوں کو گاڑیاں چلانے نہیں دی گئیں اور انھیں سائیکلیں مہیا کی گئیں۔ اور پھر جب انھیں گاڑیاں واپس مل گئیں تب بھی وہ گاڑیاں کم استعمال کرتے تھے۔جاپان کی کیوٹو یونیورسٹی میں ہونے والی تحقیق جس کی سربراہی ستوشی فیوجی نے کی تھی ۔اس میں بھی یہ بات سامنے آئی کہ جب ایک موٹر وے کو بند کر دیا گیا اور لوگ گاڑیوں کے بجائے ریل کا سفر اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے۔ سڑک کھل جانے کے بعد بھی جو لوگ پہلے ڈرائیو کرنے کے عادی تھے وہ پبلک ٹرانسپورٹ یا ریل گاڑیوں پر ہی سفر کرنے کو ترجیح دینے لگے۔بدلتے وقت کے ساتھ لوگوں میں ایسی عادات ڈالی جا سکتی ہیں جو چھوڑی نہ جا سکیں اور پختہ ہو جائیں۔

کورونا وائرس پر لوگوں کا ایک رد عمل جس پر ماحولیاتی سائنسدانوں نے ملے جلے خیالات کا اظہار کیا ہےکہ وہ کمیونٹیز میں ایک دوسرے کی صحت کے لیے اٹھائے جانے والے اجتماعی اقدامات ہیں۔جس تیز رفتار سے اور پیمانے پر کورونا وائرس کی وبا کے خلاف اقدامات کیے گئے ہیں اس سے یہ اُمید پیدا ہو ئی ہے کہ اگر ماحولیاتی تبدیلیوں سے سنگین خطرات لاحق ہو گئے تو تیز رفتاری سے اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں۔نیوزی لینڈ میں نیو ساؤتھ ویلز یونیورسٹی کے پروفیسر ڈونا گرین کا کہنا ہےکہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اگر ہمیں کچھ کرنا پڑے تو ہم کر سکتے ہیں۔لیکن پروفیسر نکولس کی طرح دوسرے ماہرین کا کہنا ہے کہ کمیونٹی اقدامات سے موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے بھی مستقبل میں امید پیدا ہوئی ہے۔ 

پروفیسر پونگراٹس کے مطابق خود ساختہ تنہائی سے لوگوں کو جو موقع ملا ہے۔ اس میں انھیں اشیا کے استعمال اور صرف کرنے کی اپنی عادات اور طرزِ عمل پر غور کرنا چاہیے۔یہ کہنا بالکل درست ہے کہ دنیا بھر میں کوئی بھی گیسوں کے اخراج میں کمی اس طریقے سے نہیں چاہتا تھا۔ کووڈ 19 کا عالمی اموات، صحت کی سہولیات، روزگار اور لوگوں کی ذہنی حالت پر بُرا اثر پڑا ہے۔لیکن ایک سبق جو اس سے حاصل ہوا ہے کہ اگر انسان ایک دوسرے کا خیال کریں تو وہ بہت کچھ تبدیل کر سکتے ہیں اور یہ ہی سبق ماحولیات کے مسئلہ کے حل کے لیے انتہائی اہم ثابت ہو سکتا ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین