شریف حسین قاسمی
فارسی شاعری کی تاریخ شاہد ہےکہ، اس کا بادشاہوں اور ان کے درباروں سے وابستہ افراد کا اوائل ہی سے چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ فنونِ لطیفہ کے اس اہم پہلو کو دربار نے زندگی اور اعتبار بخشا، اسے ایک نظم و ضابطہ عطا کیا اور ا س کی نشر و اشاعت میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ فارسی دنیا کا شاید ہی کوئی فرمانروا خاندان ایسا ہوگا ،جس نے فارسی شاعری کی حتی المقدور اور کبھی مقدور سے بڑھ کر، سرپرستی نہ کی ہو۔ شعرا ءنے بھی اس شاہی سرپرستی سے خاطرخواہ فائدہ اٹھایا اور یک گونہ اطمینان اور یکسوئی سے شعر و شاعری کو چار چاند لگانے میں منہمک رہے۔
دربار کی اس سرپرستی کا یہ نتیجہ نکلا کہ فارسی شاعری بڑی حد تک درباروں سے وابستہ ہوگئی۔درباروں سے وابستہ شعرا ءخاص خاص موقعوں پر قصیدے لکھتے، ممدوح کی موجودگی میں پڑھتے یا کسی توسط سے اس کی خدمت میں پیش کرتے اور انعام و اکرام سے نوازے جاتے تھے۔ قصیدہ نگار شعرا ءکسی جشن جیسے عیدین، ملی، سماجی اور سرکاری تقریبات میں لشکر کشی اور فتح و کامیابی پر مبارکباد اور مدح میں قصائد کہتے تھے۔
اسی طرح کسی افسوسناک واقعے کے رونما ہونے پر مرثیے لکھتے، سقوطِ بغداد پر سعدی، شیرازی کا مرثیہ فارسی ادب میں ایک شاہکار کی حیثیت رکھتا ہے۔ عمارات کی تعمیر اور دیگر تاریخی وسماجی نوعیت کے واقعات کی مناسبت سے تاریخی قطعے لکھتے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ہر لحاظ سے درباروں کی ظاہری شان و شوکت اور عظمت و شکوہ فارسی قصائد کے روپ سروپ میں جلوہ گر ہے۔
درباری شاعری (ممدوح کی تعریف و ستائش) کے نمونے قصیدے کے سوا دیگر اصناف سخن میں بھی نظر آتے ہیں۔ ایسی مثنویاں جو درباروں یا کسی وزیر و امیر کی خواہش پر نظم کی گئی ہوں، ان کے آغاز میں ممدوح کی تعریف و توصیف کی جاتی ہے۔ امیر خسرو دہلوی اور حافظ کی چند غزلیات میں بھی درباری شاعری کی فضا برقرار ہے۔ اس نوعیت کا کلام فارسی شاعری کی تقریباً ہر صنف سخن میں موجود ہے، لیکن قصیدہ ہی مدحیہ شاعری کے لیے مخصوص رہا ہے۔
یہ بھی دلچسپ صورت حال رہی ہے کہ ایک دربار سے وابستہ شاعر، اگر کسی دوسرے دربار یا اس سے وابستہ افراد کی مدح کرتا، تو اسے عام طور پر پسند نہیں کیا جاتا تھا۔ بعض اوقات اس عمل پر سزا بھگتنی پڑتی تھی۔ اس ضمن میں حکیم عارف ایجی کے بارے میں لکھا ہے کہ، یہ شاہزادہ سلیم (بعد میں جہانگیر) کے دربار میں بڑے مرتبے کے حامل تھے۔ انھوں نے جہانگیر کے ایک دوسرے عظیم المرتبت منصب دار میرزا عبدالرحیم خانخاناںکی مدح میں ایک قطعہ کہا۔ شاہزادے کو ان کی یہ حرکت ناگوار گزری۔ انھیں قلعۂ گوالیار میں قید کردیا گیا۔ حکیم عارف نے معذرت نامہ سلیم کی خدمت میں کسی کے توسط سے گزرانا، جس کا ایک شعر یہ ہے ؎
شہا، شہریارا! بہ خاک در تو
بجز مدح تو نیست در دفتر من
(شہزادے! تمھارے آستانے کی قسم، میری بیاض میں آپ کی مدح کے سوا کچھ اور نہیں)
یہ پہلو بھی بڑا دلچسپ اور انوکھا ہے کہ بعض واقعات سے پتا چلتا ہے کہ شعرا ءکا اپنے سرپرستوں اور ممدوحین سے محض واجبی تعلق نہیں تھا۔ وہ ان کی تکالیف سے رنجیدہ خاطر ہوتے تھے اور یہی حال سرپرستوں کا تھا، انھیں بھی اپنے سے وابستہ شعراء و ادبا سے ایک انس پیدا ہوجاتاتھا۔ وہ ان کی دلجوئی کرتے تھے۔ ان کے مرنے جینے میں، فاصلے ہی سے سہی، شریک ہوتے تھے۔ اسی باہمی اور دوطرفہ رابطے اور وابستگی کا نتیجہ تھا کہ درباری شاعری، جب تک دربار کا وجود برقرار رہا، رائج رہی اور اس میں مبالغہ آمیز مدح و ستائش کے خلاف دھیمی لے کے باوجود، پسندیدگی کی نظر سے دیکھی جاتی رہی۔
مغل بادشاہ ہمایوںکے دانت میں درد ہوا۔ اس نے (اس مقولے کے مطابق کہ : علاج دندان اخراج دندان) وہ دانت نکلوا دیا۔ میر ویسی اپنی جاگیر میں تھے۔ جب انھوں نے یہ خبر سنی تو اویس قرنی کی تقلید میں اپنے ولی نعمت کی طرح اپنا ایک صحت مند دانت نکلوا دیا۔ ان کا یہ عمل بادشاہ کی نگاہ میں ان کی قدر و منزلت میں اضافے کا باعث ہوا۔ سہراب بیگ ایران کے شاہ عباس ثانی سے وابستہ تھے۔ اس بادشاہ کی رحلت پر سہراب بیگ نے فرط افسوس میں زہر کھالیا اور فوت ہوگیا۔
میرزا خنجر چغتائی، ہمایوں بادشاہ کے امرا ءمیں شامل تھے، انھوں نے ایک مثنوی اپنے احوال میں کہی اور اکبر کو پیش کی اور بادشاہ کی تعریف و تحسین کے بعد اسے نصیحت کی ؎
گر ھمایی پرید زین گلشن
برسر ما توباش سایہ فگن
سخن من کہ بی ریا باشد
گر نصیحت کنم روا باشد
شاہ باید کہ او گہ و بیگاہ
از خود و خلق خود بود آگاہ
یہ بھی ہوتا تھا کہ دربار میں انعام کا اعلان ہوگیا، اب خزانچی وہ انعام ادا نہیں کررہا، شعراء قصیدے یا قطعے میں بادشاہ سے اس صورت حال کی شکایت کرتے تھے۔ حاجی حیدری کے ساتھ یہی صورت حال پیش آئی۔ انھوں نے بادشاہ کے حضور میں شکایت کی ؎
مشکلی دارم شہا! خواھم کنم پیش تو عرض
زانکہ زین مشکل مرا صد داغِ حسرت بر دل است
سیم و زر انعام کردی لیک از خازن مرا
ھم گرفتن مشکل و ھم ناگرفتن مشکل است
بادشاہ سلامت! ایک مشکل میں پھنس گیا ہوں جو خدمت میں عرض کرنی چاہتا ہوں، اس لیے کہ اس مشکل سے میرا دل داغدار ہے۔ آپ نے مجھے سونے چاندی سے نوازا، لیکن خزانچی سے یہ رقم حاصل کرنی میرے لیے مشکل ہوگئی ہے اور اگر یہ رقم نہ ملی تو دوسری مشکل یہ ہے کہ یہ حکم عدولی ہوگی۔ایسی بہت سی مثالیں ہیں۔ شعراء نے شاہی سر پرستی سے خاطر خواہ فائدہ اُٹھایا۔