توقیر عالم
مثنوی اور داستان دونوں ہی اہم اصناف ہیں۔ مثنوی کی اہمیت کے حوالے سے شبلی نعمانی نے لکھا تھا کہ ’’انواعِ شاعری میں یہ صنف (مثنوی) تمام انواع شاعری کی بہ نسبت زیادہ وسیع اور زیادہ ہمہ گیر ہے۔ اسی لیے اردو میں بہت ساری مثنویاں تحریر کی گئی ہیں اور ان کی خوبی یہ ہے کہ ان میں تہذیب و ثقافت کی مکمل عکاسی ملتی ہے‘‘۔ ایسا ہی کچھ معاملہ داستانوں کا بھی ہے کہ ان کا کینوس بھی مثنوی کی طرح کافی وسیع ہے اور ان دونوں اصناف میں مشترکہ تہذیب کی بڑی خوبصورت عکاسی کی گئی ہے۔
تہذیبی نقش کے علاوہ عہد کی مشکلات کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ انسانی تمناؤں کی عکاسی بھی ہوتی ہے۔ داستان گو ،ہوں یا مثنوی نگار دونوں سے تعلق رکھنے والے شاعروں نے اپنے زمانے کی تہذیب کی عمدہ عکاسی کی ہے۔
مثنوی، داستان، الف لیلہ، بوستانِ خیال، طلسمِ ہوش ربا، سحرالبیان، گلزارِ نسیم، مشترکہ تہذیب، باغ و بہار، نہال چند لاہوری، دیاشنکر نسیم، میر حسن، لکھنؤ، آرائش محفل، حسن بانو، قصہ حاتم طائی، نسوانی حسن، قصہ مہر افروز و دلبر، رسومات، طبقاتی کشمکش، سماجی ناہمواری، داستانِ عشق، مذہب، اخلاق، جنسیات، نفسیات کوادب کو سماج کا آئینہ کہا گیا ہے۔ یہ عکس بھی ہے اور تنقید بھی ہے۔
کوئی بھی ادب پارہ اپنی عصری حسیت سے بے نیاز نہیں رہ سکتا۔ چاہے یا ان چاہے، اس میں زمانہ کے حالات شامل ہو جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے ہر ادب اپنی تہذیب کی آئینہ داری کرتا ہے۔ مثنوی اور داستان میں یہ صورت حال کچھ زیادہ رونما ہوگئی ہے۔ غزل، مرثیہ، قصیدہ، ناول، اور افسانہ سب کا یہی حال ہے۔ جب غالب نے کہا ؎
رومیں ہے رخش عمرکہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
تو ان کی مراد اس تہذیب کی افرا تفری سے تھی۔ مثنوی مختصر بھی ہو سکتی ہے اور طویل بھی۔ اقبال کے دیوان میں ایک طرف صرف دو اشعارکی مثنوی موجود ہے تو دوسری جانب شاہنامہ فردوسی میں ساٹھ ہزار اشعار ہیں۔ رستمی کی خاور نامہ میں اسّی ہزار اشعار ہیں ٖٖٖٖضخامت کی طرح موضوعات کی بھی قید نہیں۔ مذہب،تاریخ، فلسفہ،اخلاق، جنسیات، نفسیات، تصوف، عشق، بوالہوسی، طنزو مزاح، ترک دنیااسی طرح کے دیگر عناصر کو مثنوی میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ ملا وجہی نے اپنی مثنوی قطب مشتری میں نظریاتی تنقیدکو بھی پیش کیا ہے۔
جو بے ربط بولے تو بتیاں پچیس
بھلا ہے جو یک بیت بولے سلیس
جسے بات کی ربط کا فام نئیں
اسے شعر کہنے سوں کچ کام نئیں
ہنر ہے تو کچ ناز کی برت یاں
کہ سوٹانئیں باندتے رنگ کیاں
کچھ ایساہی حال داستانوں کا ہے۔ الف لیلہ،بوستان خیال،طلسم ہوش رباجیسی ضخیم داستانیں ہمارے ادب میں موجود ہیں۔ داستان گو حضرات نے طوالت کو ایک اہم عنصر کے طور پر پیش کیا۔ بات سے بات پیدا کرنے کے سلسلے میں وہ مختلف قسم کے بیانات پیش کرتے چلے گئے۔ نتیجے کے طور پر یہاں بھی مذہب، اخلاق، تصوف،فلسفہ نفسیات، اور دیگر انسانی علوم کی آمیزش ہوتی چلی گئی۔ انسان کے سارے جذبات اور سارے علوم کو سمونے کی گنجائش داستانوں میں ہے۔
مثنوی اور داستان کے اجزائے ترکیبی لگ بھگ ایک جیسے ہوتے ہیںلیکن ضروری نہیں کہ ہر مثنوی اور ہر داستان میں یہی ترتیب برقرار رکھی جائے۔ صنف مثنوی کا دائرہ بڑا کشادہ ہے۔ داستان عشق، مہم جوئی، جنگ کے واقعات، بزم کی تفصیل، کسی معاشرہ یا انسان کی تعریف یا تنقید، اخلاق، نصیحت، مذہب، فلسفہ، نفسیات اور اس طرح کے دیگر مضامین یہاں آسانی سے پیش کیے جاسکتے ہیں جب سب کچھ مفروضہ کی بنیاد پر ہے تب دشواری کیسی۔ آن واحد میں مشرق و مغرب کی سیر کی جا سکتی ہے۔ حقیقی زندگی میں جو آرزوئیں پوری نہیں ہو پائی وہ آرزوئیں داستان اور مثنوی میں تکمیل پاتی ہیں۔
مثنوی کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے مولانا حالی نے مقدمہ شعروشاعری میں لکھا ہے :
’’اردو شاعری کی تمام اصناف میں سب سے کار آمد یہی صنف (مثنوی )ہے کیونکہ غزل یا قصیدے میں اس وجہ سے کہ اول سے آخر تک ایک ایک قافیہ کی پابندی ہوتی ہے ‘ ہر قسم کے مسلسل مضامین کی گنجائش نہیں ہوسکتی ہے مثنوی میں ظاہری اور معنوی اعتبار سے بلند پایہ شاعری کے تمام لوازم موجود ہیں۔‘‘
کچھ ایسا ہی خیال مولانا شبلی نعمانی کا بھی ہے۔
’’انواع شاعری میں یہ صنف (مثنوی )تمام انواع شاعری کی بہ نسبت زیادہ وسیع اور زیادہ ہمہ گیر ہے۔ شاعری کے جس قد ر انواع ہیں سب اس میں نہایت خوبی سے ادا ہو سکتے ہیں۔ جذبات انسانی ‘مناظر قدرت ‘ واقعہ نگاری‘ تخیل ان تمام چیزوں کے لیے مثنوی سے زیادہ کوئی میدان ہا تھ نہیں آسکتا۔‘‘
اردو کے دونوں نقاد اس بات پر متفق ہیں کہ، مثنوی کا دائرہ وسیع ترین ہوتا ہے۔
اردو کی بیشتر طویل مثنویاں منظوم داستان کہلانے کی زیادہ حقدار ہیں۔ گلشن عشق، قطب مشتری، سحرالبیان، گلزار نسیم وغیرہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے داستانیں ہیں جو نظم کی صورت میں لکھی گئی ہیں۔ نثر میں بھی کئی داستانیں لکھی گئیں۔ بیتال پچیسی، سنگھاسن بتیسی، گل بکائو لی، سب رس، الف لیلہ، چہار درویش، باغ وبہار، وغیرہ میں بھی ایک بنیادی کہانی اور چند ذیلی کہانیاں ہیں ۔
مثنوی سحرالبیان کی مکمل روداد داستان بے نظیر میں موجود ہے۔ اسی طرح قصہ گل بکائولی کو پنڈ ت دیا شنکر نسیم نے مثنوی گلزار نسیم اور نہال چند لاہوری نے داستان مذہب عشق کے طور پر لکھا۔یہاں آکر داستان اور مثنوی کی تہذیب مشترک ہو جاتی ہے۔تہذیب کی فکری اور عملی پہنچ پر جتنی بھی دشواریاں ہو سکتی ہیں سب کامل داستان اور مثنوی میں موجود ہیں۔
داستان اور مثنوی دونوں اصنا ف میں مشترکہ تہذیب پائی جاتی ہے۔ سماجی رسم ورواج رہن سہن اور ثقافت کی عکاسی کے ساتھ ساتھ انسانی تمنائوں کی بھر پور عکاسی بھی ان میں ملتی ہے۔ آج بھی شہزاد، ملا نصرالدین، حاتم طائی، حسن بانو، سند باد جہازی، علاء الدین، آزاد بخت جیسے کردار پڑھنے والوں کے ذہن میں محفوظ ہیں۔ داستان اور مثنوی کی یہ مشترکہ تہذیبی صفت ہے۔