بلوچستان حکومت کے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے حوالے سے اپوزیشن کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ کچھ نیا نہیں بلکہ اس کا اظہار اپوزیشن کی جماعتوں کی جانب سے قریب ایک سال سے زیادہ عرصے سے جاری ہے ، بلوچستان اسمبلی میں بلوچستان نیشنل پارٹی ، جمعیت علماء اسلام ، پشتونخواملی عوامی پارٹی کے ارکان کی جانب سے اسمبلی فلور کے ساتھ سڑکوں پر بھی احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اس سال کے اوائل مین مارچ میں اپوزیشن ارکان نے بلوچستان اسمبلی سے ریلی نکالی اور ریڈ زون کے سامنے احتجاج کیا تھا جس کے بعد ملک میں کرونا وائرس کو مدنظر رکھتے ہوئے مزید احتجاج کو موخر کردیا گیا تھا۔
تاہم صوبائی حکومت کے بجٹ سے قبل اپوزیشن کی جانب سے ایک بار پھر احتجاج دیکھنے میں آیا اس بار ایک احتجاج میں تو اپوزیشن ارکان رات گئے تک وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ کے سامنے دھرنا پر بیٹھے رہے جس کے بعد صوبائی حکومت میں شامل وزرا کی ٹیم سے مذاکرات کے بعد اپوزیشن ارکان نے احتجاج ختم کیا اس دوران اپوزیشن ارکان کی وزیراعلیٰ جام کمال خان سے بھی ملاقات ہوئی اور پھر صوبائی حکومت کی جانب سے بجٹ پیش کرنے کا موقع آیا اس موقع پر محسوس کیا جارہا تھا کہ شائد اپوزیشن کے صوبائی بجٹ کے حوالے سے تحفظات دور ہوگئے ہیں تاہم بجٹ پر بحث کے دوران واضح ہوا کہ ایسا کچھ نہیں کیونکہ اپوزیشن کی جانب سے مسلسل اپنے تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا بجٹ کی منظوری کے موقع پر اپوزیشن کی جانب سے صوبائی بجٹ میں شامل تمام ترقیاتی و غیرترقیاتی مطالبات زر کے حوالے سے کٹوتی کی تحریکیں لائی گئیں جو رائے شماری کے بعد نامنظور کردی گئیں۔
بجٹ کی منظوری کے بعد بجٹ پر وزیر اعلیٰ جام کمال خان کے خطاب سے قبل اپوزیشن ایوان سے واک آوٹ کرگئی اور اسی شام ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں صوبائی حکومت کی پی ایس ڈی پی کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا گیا اور اگلے ہی روز اپوزیشن جماعتوں نے صوبائی پی ایس ڈی پی کو بلوچستان ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما وسینئر قانون دان ساجد ترین ایڈووکیٹ کی توسط سے دائر کی جانے والی آئینی پٹیشن میں اپوزیشن کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ مالی سال 2020.21 کے پی ایس ڈی پی میں اپوزیشن جماعتوں کے حلقوں کو نظر انداز کردیا گیا ہے اور حکومتی جماعت بی اے پی کے غیرمنتخب لوگوں کو بجٹ میں نوازا گیا ہے حالانکہ وعدے کئے تھے کہ اپوزشین جماعتوں کو برابری کی بنیاد پر فنڈز دیں گے ، پٹیشن میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ صوبائی حکومت کا یہ اقدام پلاننگ کمیشن کی پی ایس ڈی پی سے متعلق گائیڈ لائن کی خلاف ورزی ہے۔
پلاننگ کمیشن کے گائیڈ لائن میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ تمام حلقوں کو برابری کی بنیاد پر فنڈز دیئے جائیں جبکہ سپریم کورٹ اور بلوچستان ہائی کورٹ کے بھی اس حوالے سے واضح احکامات موجود ہیں مگر اس پر عمل نہیں کیا گیا پٹیشن میں یہ بھی موقف اختیار کیا گیا ہے کہ حالیہ بجٹ میں وزیراعلی کے صوابدیدی فنڈز کی مد ساڑھے بارہ ارب روپے رکھے گئے ہیں ساتھ ہی بڑی تعداد میں غیر ضروی منصوبے بھی رکھے گئے ہیںلیکن اپوزیشن کے حلقوں کے ضروری منصوبوں کو بھی نظرانداز کیا گیا ہے،جس کے بعدبلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس نذیر احمد لانگو پر مشتمل بینچ نےصوبائی پی ایس ڈی پی سے متعلق اپوزیشن جماعتوں کی آئینی پٹیشن کو سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے ایڈیشنل چیف سیکریٹری اور سیکریٹری سی اینڈ ڈبلیو و دیگر فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے ان سے جواب طلب کرلیا ، آئندہ سماعت 13 جولائی کو ہوگی۔ہفتہ رفتہ کے دوران بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل کے بارئے میں وفاقی وزیر ریلوئے شیخ رشید احمد کے انتہائی نامناسب ریمارکس پر صوبے کے سیاسی حلقوں سمیت مختلف مکاتب فکر کی جانب سے انتہائی سخت ردعمل سامنے آیا، سردار اختر مینگل نہ صرف اپنی جماعت کے سربراہ ، سابق وزیر اعلیٰ ہیں بلکہ ان کے اور ان کے خاندان کا سیاسی اور قبائلی حوالے سے ایک معتبر مقام ہے۔
سردار اختر مینگل اور ان کے خاندان کی جدوجہد اور قربانیوں سے شائد ہی کوئی انکار کرسکے اسی طرح مینگل قبیلے کی ایک تاریخ ہے بلوچستان کے سنجیدہ حلقوں کی جانب سے وفاقی وزیر ریلوئے شیخ رشید احمد کے ریمارکس کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔ کورونا وائرس سے نمٹنے کے سو دن مکمل ہونے پر ملک بھر کی طرح ہفتہ رفتہ کے دوران کوئٹہ میں بھی تقریب کا اہتمام کیا گیا کوئٹہ کے فاطمہ جناح ہسپتال میں عزم وہمت کے سو دن کے عنوان سے تقریب منعقد کی گئی، کورونا وائرس نے جہاں پوری دنیا میں نظام حیات کو مفلوج کرکے رکھ دیا وہاں اس سے پاکستان بھی محفوظ نہ رہ سکا، مللک میں کرونا وائرس پھیلنے کے بعد بلوچستان کے ایک ایرانی سرحد کے قریب ایک چھوٹے شہر تفتان کے بارئے میں پورئے ملک میں باتیں زدزبان عام رہیں جہاں ایک جانب کچھ حلقوں کی جانب سے کورونا وائرس کے تفتان سے پھیلنے کی باتیں کی گئیں تو دوسری جانب کچھ حلقوں کا یہ موقف بھی رہا کہ بلوچستان حکومت نے ایران سے آنے والوں کو تفتان جیسے ایک چھوٹے شہر میں محدود وسائل اور تب اس مرض کے حوالے سے زیادہ تجربہ کار عملے کی کمی اور بہتر سہولیات نہ ہونے باوجود روک کر باقی ملک کو اس وبا سے بچانے کی کوششوں میں اپنا کردار ادا کیا، عزم وہمت کے سو دن کے عنوان سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ،وزیراعلیٰ نے بھی اس صورتحال کا زکر کیا کہ کورونا وائرس کی وبا کے آغاز پر اس کے بارے میں علم نہ ہونے کے برابر تھا۔
لیکن حکومت بلوچستان نے سب سے پہلے اس وبا سے نمٹنے اور اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے اقدامات کا آغاز کیا، ڈاکٹروں اور ہیلتھ ورکرز نے خدمات کی فراہمی کی ابتدا کی، حکومت بلوچستان اس وبائی مرض کے آغاز سے ہی پوری طرح مستعد رہی اور تفتان سے لے کر آج تک تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے موثر اقدامات کو یقینی بنانے کے لئے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی،وزیراعلیٰ نے اپنی تقریر میںاس بات کا بھی اظہار کیا کہ شروع میں خوف کی فضا بہت زیادہ تھی لیکن ہمارے ڈاکٹروں اور طبی عملہ نے خوف کی فضا میں بھی بےخوف ہوکر کام کیا اور اس کا شکار بھی ہوئےشہادت بھی پائی لیکن اس کے باوجود ان کا جذبہ اور عزم مستحکم رہا۔