• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈیٹ لائن لندن … آصف ڈار


برطانیہ میں تین ماہ سے زیادہ عرصے کے لاک ڈائون کے بعد اگرچہ زیادہ تر کاروبار کھل گئے ہیں مگر ان میں وہ سرگرمی نظر نہیں آرہی جو پہلے ہوا کرتی تھی۔ موسم گرما میں تو ویسے بھی ریستورانوں، کافی بارز، پبوں وغیرہ میں بہت زیادہ گہما گہمی دیکھنے میں آتی تھی تاہم ایسا لگتا ہے کہ برطانیہ میں کورونا وائرس کے نتیجے میں 45ہزار کے قریب اموات کے پیش نظر عوام کی بھاری اکثریت کورونا کے خوف میں مبتلا ہے اور سہمے ہوئے ہیں ۔ ریستوران اور پب، بارز وغیرہ کو کھلے ہوئے تقریباً ایک ہفتہ ہوگیا ہے مگر ان کی اکثریت اب بھی خالی نظر آرہی ہے۔ باہر کھانا کھانے والوں کی تعداد دس فی صد کے قریب رہ گئی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ چونکہ کھانے پینے کی یہ جگہیں (Indoor) ہوتی ہیں، اس لئے ابھی لوگ مزید احتیاط کررہےہوں۔ باربر شاپس میں بھی روایتی رش دیکھنے میں نہیں آرہا۔ یہ بھی درست ہے کہ ملک کے بعض علاقوں میں صورتحال اس سے مختلف بھی ہے اور وہاں زیادہ لوگ گھروں سے باہر نکل کر سرگرمیوں میں مصروف ہیں، تاہم ایک ہفتے کے دوران کاروباری سرگرمیوں کو آگے بڑھتا ہوا نہ دیکھ کر حکومت بھی اس خوف میں مبتلا ہوگئی ہے کہ اسے کہیں اکتوبر میں فرلو سکیم ختم ہونے کے بعد ایک دم لاکھوں افراد کے بے روزگار ہونے کی صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑے اور ملک کی معیشت دھڑام سے نیچے نہ جا گرے۔ ابھی تو فرلو سکیم موجود ہے اور سیلف ایمپلائیڈ کو حکومت کی جانب سے امداد دی جارہی ہے مگر یہ ہنی مون جلد ختم ہونے والا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے لاک ڈائون کھولنے میں جلد بازی سے کام لیا اور کوشش کی کہ لوگوں کی نوکریاں بچائی جاسکیں مگر کاروبار ہیں کہ اٹھنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ بہت سے کاروبار ایسے بھی ہیں کہ جو لاک ڈائون کے بعد دوبارہ چالو ہی نہیں ہوسکے۔ اکتوبر کے بعد ان میں کاروبار کرنے والے بھی حکومت کے پلے آن پڑیں گے۔ چنانچہ حکومت کو لوگوں کی نوکریوں کو مزید کچھ عرصہ تک بچانے اور معیشت کو سہارا دینے کے لئے مزید 30ارب پونڈ مختص کرنے کا مشکل فیصلہ کرنا پڑا ۔ اس سے کم از کم آئندہ برس کے اوائل تک لوگوں کی زیادہ تعداد بیروزگار نہیں ہوگی اور آہستہ آہستہ کاروباروں کو بھی سنبھلنے کا موقع ملے گا، ابھی چند دن پہلے تک حکومت کو لوگوں کو یہ مشورہ دے رہی تھی کہ وہ گھروں میں رہیں، غیرضروری طور پر باہر نہ نکلیں۔ اب وہی حکومت لوگوں سے کہہ رہی ہے کہ گھروں سے باہر نکلیں، ریستورانوں، کافی شاپس وغیرہ میں جائیں، باہر کھانا کھائیں، اس کے لئے حکومت ان کا نصف بل خود ادا کرے گی، جبکہ کھانے پینے کی صنعت میں وی اے ٹی پر بھی کچھ عرصہ کے لئے رعایت دے دی گئی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت آنے والی کسادبازاری سے سخت خوفزدہ ہے اور چاہتی ہے کہ اس ری سیشن کے اثرات کو جس حد تک ہوسکتا ہے محدود رکھا جائے، دوسری جانب یہ نہیں یہ لوگ پبوں اور ریستورانوں میں جانا نہیں چاہتے یا یہ کہ ان کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ لاک ڈائون کے دنوں میں لوگوں کے پاس کافی پیسے جمع ہوگئے ہیں مگر وہ نہیں چاہتے کہ وہ کورونا میں مبتلا ہوکر آئی سی یو میں پہنچ جائیں یا پھر ان کا بھی وہی حال ہو جو 45ہزار کے قریب افراد کا ہوا ہے۔ اس کے باوجود بہت سے لوگ ایسے ہیں جو بظاہر رسک لے رہے ہیں اور ان تمام سرگرمیوں میں مشغول ہوگئے ہیں جو ان کا لاک ڈائون سے پہلے معمول تھیں مگر ان کی تعداد بہت کم ہے۔ ملک کی معیشت کا پہیہ دوبارہ چلانے، کاروباری اور نوکریوں کو بچانے کے لئے پہلے جیسی سرگرمیوں کی ضرورت ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ برطانیہ کے عوام فی الحال اتنا زیادہ رسک لینے کو تیار نہیں ہیں۔

تازہ ترین